پاکستان کی تاریخ میں دو بار تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانےکی کوشش کی گئی ، یکم نومبر 1989 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد 12 ووٹوں سے ناکام ہوئی، اگست 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد ناکام رہی، نواز شریف کے بعد عمران خان دوسرے وزیر اعظم تھے جنہوں نے رضا کارانہ طور پر اعتماد کا ووٹ لیا تھا،تیسری بار آخر کار عمران خان کے خلاف 174 ارکان نے عدم اعتماد کی قرار داد میں ووٹ دے کر 9 اپریل 2022 کی رات فارغ کر دیا، یوں عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانےوالے پہلے وزیر اعظم بن گئے
تحریک عدم اعتماد کا اصول یہ ہوتا ہے کہ آئین کے مطابق اگر صدر مملکت کو لگے کہ وزیر اعظم قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکا ہے تو وہ اجلاس طلب کر کے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتا ہے، ہم اس بات یہ ناواقف ہوتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد سے جمہوریت کو سیاسی عدم استحکام ، حکومتی کاموں میں رکاوٹ اور آئینی بحران جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس بات سے آج پاکستانی قوم خوب واقف ہو چکی ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد ایک ایسا آئینی بحران پیدا ہوا جس سے نکلنے کیلئے آج کی مقتدرہ اور سیاسی مشینری کو امریکہ اور دوسرے ممالک جیسی طاقتوں کی ضرورت پڑ رہی ہے ، اب پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کیلئے متحرک ایک نئے تجربے کی اُڑان میں مصروف ہے، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں سیاسی انتشار جاری ہے، پاکستان مسلم لیگ نواز کے مقرر کردہ وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد پیش کی جائے گی، جس پر وفاق میں اتحادی حکومت ن لیگ کو ئی اعتراض نہیں، یہاں سوال یہ ہے کہ تجربہ کار نواز لیگ کشمیر میں ناکام ہو چکی ہے، جبکہ کشمیر میں جمہوریت کا نعرہ ذاتی مفادات تک محدود ہو چکا ہے،سال 2021 میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تھی ،اس کے بعد آج 2 نومبر 2025 تک تین وزیر اعظم آ چکے ہیں جبکہ چوتھے وزیر اعظم کو لانے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں،پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور کشمیر کی ذاتی جماعت کشمیر کی تباہی کی ذمہ دار ہیں لیکن کوئی بھی یہ بات ماننے سے انکاری ہے، 1975 سے لیکر اب تک تمام سیاسی جماعتیں کشمیر میں حکومت کر چکی ہیں
آج صدر زرداری صاحب نے گلگت بلتستان میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، پہلے پیپلز پارٹی چار بار آزاد کشمیر میں حکومت کر چکی،وزیراعظم راجہ ممتاز حسین راؤ 1990، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری 1996، سردار محمد یعقوب خان2009، چوہدری عبدالمجید 2011 سے 2016 تک اقتدار میں رہے، یہ سب پیپلز پارٹی کے تھے، آج کشمیر میں الیکشن میں صرف 8 ماہ ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ اگر چار بار اقتدار میں رِہ کر پیپلز پارٹی کشمیر کی آزادی میں ناکام رہی تو ان 8 ماہ میں تحریک عدم اعتماد سے کشمیر کو آزادی دلا سکتے ہیں؟ سب کا جواب ہو گا نہیں، تو پھر ایسا کیوں ہے کہ آٹھ ماہ کا اقتدار میں بھی ہماری سیاسی جماعتیں چھوڑنا نہیں چاہتی ہیں ، در اصل ہماری جماعتیں جمہوریت، عوام اور آئین کیلئے نہیں بلکہ اقتدار، وسائل اور مفاد کیلئے ذاتی سودے کرتی ہیں جس کا عوام چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے ڈائرکٹلی اور اِن ڈائریکٹلی عوام اداروں اور جمہوریت کو ہوتا ہے
قطع تعلق اس کہ کشمیری عوام ہی ان کے خاتمے کیلئے کچھ کرے مگر نہیں ، جب کسی غیر سیاسی طاقت کی سپورٹ حاصل ہو کشمیر میں تاریخی احتجاج ضرور ہوتے ہیں ، اور پھر جب سیاسی طاقتیں آئین کی بالا دستی کیلئے قانون نافذ کرتی ہیں تو ان کو نان سٹیٹ ایکٹرز کا نام دے کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، 2006 کے بعد بننے والی اسمبلی میں بھی 5 سال کے دوران 4 وزیراعظم آئے تھے اس لیے میں کہتا ہوں کہ سازشوں کے الزام لگانے والوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ محلاتی سازشوں میں آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کا کوئی ثانی نہیں ، یہ ایسی سر زمین ہے جہاں 1975 سے لیکر آج تک ہر وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے خفیہ میٹنگز ہمیشہ جاری رہتی ہیں ، لہذا آج بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے
آزاد کشمیر میں چار سال کے دوران چوتھا وزیراعظم ، سوال پھر وہی کہ ضرورت کیا ہے، اگر یہ دلیل ہے کہ اگلا وزیر اعظم سب بدل دے گا تو یہ سب پہلے کیوں نہیں ہوا؟ یہ عوام کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے، 2021 میں مینڈیٹ تو تحریک انصاف کو ملا تھا لیکن 11 اپریل 2023 کو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کو آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے نااہل کردیا تھا، جبکہ اس سے پہلے 4 اپریل 2022 کو سردار قیوم نیازی کو اپنی پارٹی پی ٹی آئی ہی نے وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا، چوہدری انورالحق نے 21 اپریل 2023 کو آزاد جموں اور کشمیر کے پندرھویں وزیراعظم کا حلف اٹھا یا تھا، اب اگر پیپلز پارٹی ضمیر کے سودے کرنے میں کامیاب ہو گئی اور کشمیریوں نے اس کام کیلئے خوش آمدید کہا تو چار سال میں چوتھا وزیر اعظم آئے گا، آخر کار آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو قُل کائنات کا مالک حشر میں ضرور پوچھے گا کہ ضمیروں کے سودے کر کے انسانی حقوق کے دعوؤں کے باوجود حلف کی خلاف ورزی کیوں کی؟
رہنما صدر پیپلز پارٹی آزادکشمیر آج کے دن تک چوہدری یاسین ہیں،موصوف کا حلقہ آزاد کشمیر کا سب سے پسماندہ حلقہ ہے ایک بھی سڑک درست حالت میں نہیں جنگلات پر قبضے اور خود مافیا کا سرغنہ ہے، پیپلز پارٹی آزا د کشمیر کے صدر چوہدری یاسین کا حلقہ ایل اے 10 کوٹلی 3 تھا،الیکشن 2021 میں ایل اے 10 کوٹلی 3 میں دو بڑی سیاسی شخصیات سابق وزیر سردارفاروق سکندر خان مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر اور پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر چودھری محمد یاسین ایک دوسرے کے مد مقابل تھے ۔ یاد رہے سردار فاروق سکندر الیکشن 2016 میں ن لیگ کے ٹکٹ پر 26 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور وزیر بنے تھے، کوٹلی ضلع کشمیر کا ایک اہم ضلع ہے لیکن یہاں سہولیات عوام کو نہیں دی جاتی ہیں اور سیاحت کو بھی محدود کر دیا گیا ہے، سردار فاروق سکندر سابق وزیر اعظم اور سابق صدر سردار سکندر حیات کے بیٹے ہیں
آزاد کشمیر میں 23 ستمبر سے 4 اکتوبر تک جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور مسلم کانفرنس میں جھگڑے کے بعد احتجاج ہوا تھا جس میں فورسز کا نقصان بھی ہوا تھا۔ اس کے بعد ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ جس کا ایک نقطہ یہ تھا کہ کابینہ کا حجم 20 وزراء اور مشیران تک محدود ہو گا جبکہ سیکرٹریز کی تعداد بھی بیس سے زائد نہیں ہو گی مگر آج طاقتوروں نے سوچ لیا ہے کہ بیس وزراء اور مشیر تو کیا ہم تختہ ہی الٹ دیتے ہیں لہذا وہ سب کچھ انہوں نے کر دکھایا، اب سوال یہ کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وہی ہو گا جو آج وفاق اور صوبوں میں ہو رہا ہے، یعنی سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، آئین کی خلاف ورزی اور طاقت کا زور۔افتخار نسیم کی ایک غزل کا شعر ہے کہ۔۔
ہر طرف عام ہے بدنام سیاست کا چلن
صبر سے کام لو جذبات پہ قابو رکھو
اور میں کشمیری قوم سے کہوں گا کہ ۔۔
زور بازو آزما شکوہ نہ کر صیاد سے
آج تک کوئی قفس ٹوٹا نہیں فریاد سے۔
نوٹ:لکھاری علی رضا گورنمٹ کالج ( جی سی یونیورسٹی ) لاہور کے اسکالر ہیں جو مختلف اخبارات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آپ مختلف بڑے نجی چینلز کے ساتھ کام کرچکے ہیں جو بین الاقوامی اور تایخی موضوعات پر خاصی مہارت رکھتے ہیں






