پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے قابض افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ 9 اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا، جس کے تحت یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کا پہلا مرحلہ تھا، جس کا مقصد غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ تھا۔
پاکستان ان 8 مسلمان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اس منصوبے میں تعاون کیا۔ اگرچہ وقفے وقفے سے کشیدگی برقرار رہی، تاہم جنگ بندی اب بھی برقرار ہے۔
پیر کو ترکیہ، پاکستان، سعودی عرب، قطر، اردن، انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے استنبول میں اسلامی و عرب رابطہ اجلاس میں ملاقات کی۔ اجلاس میں غزہ کی صورتحال اور جنگ بندی پر غور کیا گیا۔دفترِ خارجہ کے مطابق وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار اور دیگر رہنماؤں نے پائیدار امن، انسانی امداد، اور اسرائیلی انخلا پر زور دیا۔ پاکستان نے مؤقف دہرایا کہ 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق القدس الشریف دارالحکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے۔
ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان نے کہا کہ فلسطینیوں کو اپنے معاملات اور سیکیورٹی خود سنبھالنی چاہیے، جبکہ عالمی برادری کو تعاون فراہم کرنا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کوئی نیا سرپرستی یا نگران نظام قبول نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ تمام 7 ممالک اس منصوبے کے حامی ہیں جس کے تحت فلسطینی غزہ کا کنٹرول ایک مشترکہ کمیٹی کو دیں گے۔ حماس نے بھی اس پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
ترکیہ نے تجویز دی کہ بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے قائم کی جائے تاکہ اسے قانونی جواز حاصل ہو۔ تاہم اسرائیل ترکیہ کی شمولیت کی مخالفت کر رہا ہے، خاص طور پر اس کے حماس سے قریبی روابط کے باعث۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات، دو نوجوان قتل
صدر مملکت نے سینیٹ کا اجلاس کل شام 5 بجے طلب کر لیا
امریکا کا جوہری دھماکوں کے تجربات کا کوئی منصوبہ نہیں، وزیرِ توانائی
کینیڈا ،بھارتی طلبہ کے اسٹڈی ویزے مسترد ہونے میں ریکارڈ اضافہ








