آئی جی خیبرپختونخوا (کے پی) نے پشاور ہائی کورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا پنجاب کی طرح مکمل فعال اور پروفیشنل نہیں ہے۔

پشاور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کریمنل جسٹس سسٹم میں خامیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، ڈی جی پراسیکیوشن، سیکرٹری فائنانس اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جدید دور میں یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس جرائم سے باخبر نہ ہو، آپ کے محکمے میں احتساب کا کیا نظام ہے؟ آئی جی پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس میں سب سے مضبوط احتسابی نظام موجود ہے اور اب تک ہزاروں اہلکاروں کو سزائیں دی جا چکی ہیں،ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ پشاور میں 458 تفتیشی افسران تعینات ہیں جبکہ مزید 500 کی ضرورت ہے، ایف ایس ایل میں بہتری کے لیے ایک ارب روپے دینے کو تیار ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پشاور شہر کی صورتحال سب کے سامنے ہے، پولیس اور پراسیکیوشن کو سپورٹ فراہم کی جائے۔سماعت کے دوران ڈی جی پراسیکیوشن نے مؤقف اختیار کیا کہ پراسیکیوشن اکیڈمی غیر فعال ہے جسے فعال کرنے کے لیے سکیورٹی اور بجلی کی فراہمی درکار ہے۔ چیف جسٹس نے پراسیکیوشن سے پوسٹنگ و ٹرانسفر پالیسی طلب کرلی۔ سیکریٹری فنانس نے عدالت کو بتایا کہ اس سال 15 ارب روپے کی پروکیورمنٹ ہوگی، کے پی پولیس کی تنخواہیں پنجاب کے برابر کردی گئی ہیں اور شہداء کے لیے خصوصی فنڈ مختص کیا گیا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل اکیڈمی پولیس کو اپنے خرچے پر تربیت دینے کو تیار ہے۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی جواد قمر نے بتایا کہ پنجاب میں 2016 میں سی ٹی ڈی کیسز میں سزا کی شرح 4 فیصد تھی جو 2019 میں 84 فیصد تک پہنچ گئی، وہاں کے افسران سی ٹی ڈی میں ہی رہتے ہیں، خیبرپختونخوا میں بھی یہی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ سی ٹی ڈی کے سروس رولز عدالت میں جمع کرائے جائیں تاکہ مؤثر تفتیشی نظام کے لیے رہنما اصول طے کیے جا سکیں۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے پوچھا کہ آپ لوگ پولیس کو سپورٹ کیوں نہیں کر رہے؟ کیا یہ افسران مافیا سے چندہ مانگیں،عدالت نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو تین دن میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

Shares: