دنیا بھر میں سب سے عام مگر پریشان کن مسئلوں میں سے ایک “خشکی” یا “ڈینڈرف” ہے، وہ سفید ذرات جو کندھوں پر گر کر شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ بعض لوگوں کے لیے یہ وقتی مسئلہ ہوتا ہے، جبکہ کئی افراد کے لیے یہ برسوں جاری رہنے والی کیفیت بن جاتی ہے جس پر کوئی بھی “اینٹی ڈینڈرف شیمپو” کارگر ثابت نہیں ہوتا۔
ماہرینِ امراضِ جلد کے مطابق خشکی صرف صفائی یا بالوں کی خشکی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طبی حالت ہے جس کے کئی اسباب ہیں۔ طبّی زبان میں اسے Seborrheic Dermatitis یا ہلکے درجے میں Pityriasis Capitis کہا جاتا ہے۔ جرنل آف کلینیکل اینڈ انویسٹی گیٹو ڈرمیٹولوجی (2019) کے مطابق، دنیا کی بالغ آبادی میں سے تقریباً 50 فیصد افراد کسی نہ کسی درجے کی خشکی کا شکار ہیں۔بھارت اور برصغیر کے دیگر ممالک میں جہاں نمی، آلودگی اور بالوں میں تیل لگانے کا رواج عام ہے، وہاں ماہرین کہتے ہیں کہ خشکی عموماً سردیوں اور برسات کے بعد کے مہینوں میں بڑھ جاتی ہے۔عام تاثر کے برعکس خشکی کا تعلق “میل کچیل” یا صفائی کی کمی سے نہیں ہے۔یہ ایک خوردبینی فنگس Malassezia globosa کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہے، جو سر کی جلد کے قدرتی تیل (Sebum) پر پرورش پاتی ہے۔یہ فنگس ان تیلوں کو توڑ کر Oleic Acid پیدا کرتی ہے جو بعض افراد کی جلد کو جلا دیتا ہے، نتیجتاً خارش، سرخی اور سفید ذرات پیدا ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق خشکی اچانک نہیں آتی۔ذہنی دباؤ (Stress) اور ہارمونل تبدیلیاں تیل کی پیداوار بڑھا دیتی ہیں، جو فنگس کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔اسی وجہ سے نوجوانوں اور بلوغت کے دوران یہ مسئلہ زیادہ عام ہے۔سرد، خشک موسم سر کی جلد کو ڈی ہائیڈریٹ کر دیتا ہے جبکہ گرم، مرطوب موسم میں پسینہ اور تیل دونوں بڑھ جاتے ہیں، جس سے فنگس تیزی سے پھیلتی ہے۔تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ مرطوب یا آلودہ شہری علاقوں میں رہنے والے افراد کو مستقل خشکی زیادہ ہوتی ہے۔
بھارت اور پاکستان میں بالوں میں تیل لگانے کی روایت صدیوں پرانی ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ ہر کسی کے لیے مفید نہیں۔بھاری تیل جیسے ناریل یا سرسوں کا تیل اگر خشکی والے سر پر لگایا جائے تو یہ فنگس کو خوراک فراہم کرتا ہے، جس سے خارش اور سوزش بڑھ جاتی ہے۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ ہلکے وزن والے، دوائی دار یا اینٹی فنگل تیل،سیریم استعمال کریں اور رات بھر تیل لگا کر نہ چھوڑیں کیونکہ یہ گرمی اور نمی کو بند کر کے فنگس کو بڑھاتا ہے۔
جرنل آف کاسمیٹک ڈرمیٹولوجی (2022) کے مطابق، دو مختلف اجزاء والے شیمپوؤں کو باری باری استعمال کرنے سے فنگس مزاحمت نہیں کرتی اور بہتر نتائج ملتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق علاج میں تسلسل ضروری ہے۔اکثر دوائی دار شیمپوؤں کو 4 تا 6 ہفتے تک ہفتے میں 2-3 مرتبہ استعمال کرنا پڑتا ہے تاکہ نمایاں بہتری آئے۔
حالیہ تحقیق کے مطابق، خشکی کا تعلق صرف بیرونی عوامل سے نہیں بلکہ جسم کے اندرونی توازن سے بھی ہے۔Frontiers in Microbiology (2020) میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق، جن افراد کو دائمی خشکی ہوتی ہے، ان کے آنتوں کے بیکٹیریا میں تنوع کم اور جسم میں سوزش کے آثار زیادہ پائے گئے۔ ذہنی دباؤ پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ یوگا، ورزش اور نیند کی کمی دور کرنے سے ہارمونل توازن بہتر ہوتا ہے۔
اگر خشکی کے ساتھ سرخی کانوں، بھنوؤں یا سینے تک پھیل جائے تو یہ عام خشکی نہیں بلکہ Seborrheic Dermatitis ہو سکتا ہے۔اسی طرح اگر موٹی تہیں یا شدید خارش ہو تو یہ Psoriasis یا Eczema کی علامت بھی ہو سکتی ہے، جس کے لیے خود علاج کے بجائے ماہرِ جلد سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ گھریلو ٹوٹکوں پر اندھا دھند انحصار، یا ضرورت سے زیادہ تیل لگانا فائدے کے بجائے نقصان دیتا ہے۔








