امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پرجوش بیانات کے باوجود امکان ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے رواں ماہ وائٹ ہاؤس کے دورے کے دوران اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا معاہدہ طے نہیں پائے گا۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق دہائیوں کی دشمنی کے بعد اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوتے ہیں تو یہ مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی و سکیورٹی منظرنامے کو بڑی حد تک بدل دے گا اور اس سے خطے میں امریکی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ انہیں امید ہے سعودی عرب بہت جلد اُن مسلم ممالک میں شامل ہوگا جنہوں نے 2020 کے ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسرائیل سے تعلقات بحال کیے تھے۔تاہم دو خلیجی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ ریاض نے واشنگٹن کو واضح کر دیا ہے کہ اس کا مؤقف برقرار ہے — سعودی عرب صرف اُس وقت معاہدے پر دستخط کرے گا جب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک واضح روڈ میپ طے پا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق دونوں ممالک کسی بھی سفارتی غلط فہمی سے بچنے اور مؤقف میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ 18 نومبر کو متوقع وائٹ ہاؤس ملاقات کے دوران کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔سابق امریکی انٹیلی جنس افسر اور موجودہ اٹلانٹک کونسل کے ماہر جوناتھن پینی کاف کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کسی باضابطہ تعلقات کو اُس وقت تک آگے نہیں بڑھائیں گے جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کا قابلِ عمل راستہ واضح نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ولی عہد ممکنہ طور پر صدر ٹرمپ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے تاکہ خودمختار فلسطینی ریاست کے لیے زیادہ مضبوط اور واضح امریکی حمایت حاصل کی جا سکے۔

نئی کھدائی، کراچی میں ٹریفک جام کا نیا مرحلہ شروع ہونے کو تیار

تھائی لینڈ کے قریب تارکین وطن کی کشتی الٹنے سے سات افراد ہلاک

حکومت کا 22 ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کا معاہدہ موجود ہے،سید قمر رضا

Shares: