بھارت میں ایک بار پھر سیاسی اور سکیورٹی واقعات کے درمیان حیران کن مماثلت سامنے آ رہی ہے۔ نئی دہلی میں ہونے والے دھماکے کے اگلے ہی روز بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ووٹ مانگنے شروع کر دیئے،مودی نے ایکس پوسٹ میں بہار انتخابات کے لئے ووٹ مانگے ہیں
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ دھماکے کے فوراً بعد مودی کا "قومی سلامتی” اور "دہشت گردی کے خطرے” کو موضوع بنانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ موجودہ حکومت ایک بار پھر سکیورٹی واقعات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ذرائع کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی کے بعد اچانک ایک مبینہ "دہشت گرد نیٹ ورک” کے پکڑے جانے کا اعلان کیا گیا، اور پھر نئی دہلی کے لال قلعہ کے قریب کار دھماکہ پیش آیا۔
اس دھماکے نے نہ صرف دارالحکومت میں خوف و ہراس پھیلا دیا بلکہ بھارتی میڈیا، "گودی میڈیا” نے فوراً "پاکستانی ہاتھ” اور "دہشت گردی کے بڑھتے خطرات” کے بیانیے کو نمایاں انداز میں پیش کرنا شروع کر دیا۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تمام واقعات ایک طے شدہ بیانیہ تشکیل دیتے ہیں یعنی پہلے کسی سکیورٹی خطرے یا واقعے کو ابھارا جائے، پھر میڈیا کے ذریعے جذبات کو بھڑکایا جائے، اور آخر میں حکمران جماعت "قومی سلامتی” کے نام پر عوام سے ووٹ مانگے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح کے واقعات پر اب سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ کئی غیر ملکی میڈیا اداروں نے حالیہ دھماکے، اس کے بعد کی سیاسی سرگرمیوں اور حکومت کے فوری ردعمل کو "ممکنہ فالس فلیگ آپریشن” کے تناظر میں دیکھنا شروع کر دیا ہے۔
ایک غیر ملکی تجزیہ کار نے لکھا "یہ حیرت انگیز اتفاق نہیں بلکہ ایک مخصوص سیاسی حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے ، پہلے شکست، پھر دھماکہ، اور پھر انتخابی نعروں میں وطن پرستی کا شور،دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ انتخابی نقصان سے توجہ ہٹانے کے لیے "خوف اور دشمنی” کی سیاست کر رہی ہے۔








