اسلام آباد میں حالیہ خودکش حملے کے بعد مختلف دہشت گردگروہوں کے متضاد بیانات نے صورتحال کو الجھا دیا ہے۔

ابتدائی طور پر تحریکِ طالبان پاکستان (سابق جماعت الاحرار) کے عمر خالد خراسانی گروہ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ نشانہ ججز، وکلاء اور عدالتی عملہ تھا۔ تاہم چند گھنٹوں بعد جماعت الاحرار نے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے اس ذمہ داری سے لاتعلقی اختیار کی اور پہلے بیان کو جعلی اور من گھڑت قرار دیا۔دوسری جانب ایک اور گروہ اتحاد المجاہدین پاکستان (IMP) نے بھی اسلام آباد کی ضلعی عدالت اور وانا کیڈیٹ کالج پر ہونے والے حملوں سے خود کو مکمل طور پر الگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اُن کی تنظیم تعلیمی یا عوامی اداروں کو نشانہ نہیں بناتی۔

ماہرینِ امورِ دفاع و سلامتی کے مطابق ان متضاد بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے درمیان انتظامی کمزوری، اندرونی اختلافات اور نظریاتی تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق مختلف گروہوں میں اعتماد کی کمی اور عوامی ردِعمل کے خوف نے ان تنظیموں کی صفوں میں انتشار پیدا کر دیا ہے، جو ملک میں موجود انتہا پسند نیٹ ورکس کی مزید ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کی نشاندہی کرتا ہے۔سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے تناظر میں انٹیلی جنس شیئرنگ اور کوآرڈی نیشن مزید بڑھائی جا رہی ہے تاکہ ان بکھرے ہوئے گروہوں کی ممکنہ کارروائیوں کو قبل از وقت ناکام بنایا جا سکے۔

Shares: