قوموں کے عروج و زوال کا تعلق صرف معیشیت سیاست یا دفاعی طاقت سے نہیں ہوتا بلکہ ان کے اجتماعی رویوں اور سوچ کے تسلسل سے ہوتا ہے۔ جب ایک قوم اپنے فیصلوں، موقف اور ترجیحات میں یک رنگی اختیار کرتی ہے تو دنیا اسے ایک سنجیدہ معتبر اور باوقار قوم کے طور پر پہچانتی ہے۔ لیکن جب یہی قوم حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات، رائے اور رویے بدلنے لگے تو اس کا تاثر متزلزل ہو جاتا ہے اور بدقسمتی سے آج ہمیں اپنے معاشرے میں دکھائی دیتی ہے۔ ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو جب پاک بھارت جنگ ہوئی اس وقت پوری قوم نے اپنی فوج اور عسکری قیادت پر فخر کیا۔ پوری قوم نے آرمی چیف کو ہیرو قرار دیا فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا اور ان کی قیادت کو قومی اتحاد کی علامت قرار دیا۔ مگر وقت گزر گیا اور حالات بدلنے پر وہی قوم اسی شخصیت کے بارے میں مختلف آراء اختیار کرنے لگی۔ سوال یہ نہیں کہ اختلاف کیوں کیا جا رہا ہے اختلاف رائے تو ہر جمہوری معاشرے کی خوبصورتی ہے اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے موقف میں اصولی تسلسل برقرار رکھتے ہیں؟ کیا ہم حالات کے مطابق رائے بدلتے ہیں یا اصول کے مطابق؟ قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب ان کے رویے وقتی مفادات سے بالاتر ہو کر اصولی بنیادوں پر استوار ہوں۔ یہ تضاد یا دورنگی رویہ ہمیں دنیا کے سامنے کمزور ظاہر کرتا ہے دنیا یہ دیکھتی ہے کہ پاکستانی قوم کبھی اپنے ہی فیصلوں پر فخر کرتی ہے اور پھر انہی فیصلوں پر نقطہ چینی شروع کر دیتی ہے۔ یہی رویہ قومی اداروں کے احترام اور اجتماعی اعتبار کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اقبال نے اسی کیفیت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا
یک رنگ ہو جا اے میرے دل کے درد کی دعا
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
یہ شعر محض تصوف یا اخلاقیات کا درس نہیں دیتا بلکہ یہ قومی تعمیر کی بنیاد بھی ہے جب تک ہم اپنی سوچ اپنی زبان اور اپنے فیصلوں میں استقامت پیدا نہیں کریں گے تب تک ہماری اجتماعی ساکھ مضبوط نہیں ہو سکتی قوموں کی پختگی کا پیمانہ ان کی یکجہتی دیانت فکر اور تسلسل رائے میں ہوتا ہے نہ کہ وقتی تعریفوں اور موسمی تنقیدوں میں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی آراء کو وقتی جذبات سے ازاد کریں اصولوں کے تابع بنائیں اور بطور قوم ایک رنگ اختیار کریں کیونکہ قوموں کا معیار دو رنگی نہیں بلکہ یک رنگ میں پوشیدہ ہے۔

بطور قوم یکجہتی، دیانت اور فکری تسلسل اصل طاقت،تجزیہ:شہزاد قریشی
Shares:







