برطانوی جریدے "دی اکانومسٹ” نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر خصوصی رپورٹ میں لکھا کہ سابق وزیراعظم کی بشریٰ بی بی سے تیسری شادی نے ناصرف ان کی ذاتی زندگی بلکہ ان کے انداز حکمرانی پر بھی سوالات کھڑے کیے۔

سینئر صحافی اوون بینیٹ جونز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سابق وزیراعظم کے قریبی حلقوں کے مطابق بشریٰ بی بی اہم تقرریوں اور روزمرہ سرکاری فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی تھیں، جس سے عمران خان کے فیصلہ سازی کے عمل پر روحانی مشاورت کا رنگ غالب ہونے کی شکایت پیدا ہوئی۔بشریٰ بی بی کے روحانی اثر کے نتیجے میں عمران خان اپنے اعلان کردہ اصلاحاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔ بعض مبصرین کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ حساس ادارے کے کچھ افراد مبینہ طور پر ایسی معلومات بشری بی بی تک پہنچاتے تھے جنہیں بشریٰ بی بی عمران خان کے سامنے اپنی روحانی بصیرت سے حاصل معلومات کے طور پر پیش کرتی تھیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد عمران خان کے گھر میں عجیب و غریب رسومات شروع ہوئیں، جیسے عمران خان کے سر کے گرد کچے گوشت کو گھمانا، روزانہ سیاہ بکرے یا مرغیوں کے سر قبرستان میں پھینکوانا اور کبھی کبھار زندہ سیاہ بکرے منگوانا۔پاکستانی سیاست میں ایک کردار ایسا ہے جو منظرِ عام پر کم نظر آیا لیکن اُس کا پسِ پردہ اثر و رسوخ موضوعِ بحث بنا رہا۔ یہ کردار ہے بشریٰ بی بی کا، جو سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ ہیں، اُن کی روحانی رہنما بھی اور مبصرین کے مطابق وہ شخصیت جنہوں نے عمران خان کی سیاسی زندگی پر سب سے گہرا اثر ڈالا۔ دی اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ بشریٰ بی بی سے شادی نے ناصرف عمران خان کی ذاتی زندگی بلکہ اُن کے انداز حکمرانی پر بھی سوالات کھڑے کیے۔رپورٹ کے مطابق 2018 میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بشریٰ بی بی کا کردار تیزی سے سیاسی بحث کا حصہ بن گیا، مخالفین نے اُن ہر حکومتی فیصلوں پر حد سے زیادہ مداخلت کا الزام لگایا۔عمران خان کی کابینہ کے ایک رکن نے تو یہاں تک بتایا کہ بشریٰ بی بی کا وزیرِاعظم ہاؤس پر مکمل کنٹرول تھا۔ سینِئر صحافی اوون بینیٹ جونز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سابق وزیراعظم کے قریبی حلقوں کے مطابق بشری بی بی اہم تقرریوں اور روزمرہ کے سرکاری فیصلوں پر اثرانداز ہوتی تھیں، جس سے عمران خان کی فیصلہ سازی پر روحانی مشاورت کا رنگ غالب ہونے کی شکایت پیدا ہوئی۔ اور نتیجاً عمران خان اپنے اعلان کردہ اصلاحاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔

رپورٹ کے مطابق عمران خان کے ڈرائیور اور گھر کے سابق ملازمین نے دعویٰ کیا کہ بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد گھر میں عجیب و غریب رسومات شروع ہوئیں، جیسے عمران خان کے سر کے گرد کچے گوشت کو گھمانا، لال مرچیں جلانا، روزانہ سیاہ بکرے یا مرغیوں کے سر قبرستان میں پھنکوانا اور کبھی کبھار زندہ سیاہ بکرے منگوانا، علاقے کے قصائی نے بھی ایسے آرڈرز کی تصدیق کی۔دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کے ایک رشتے دار نے جہانگیر ترین کو بتایا کہ وہ کالا جادو کرتی ہیں، تاہم پی ٹی آئی نے ان باتوں کو ناراض ملازمین کی پھیلائی ہوئی بے بنیاد کہانیاں قرار دیا۔رپورٹ کے مطابق کچھ عرصے بعد ایک دعوت میں جہانگیر ترین سے ملاقات کے دوران بشریٰ بی بی نے خود جہانگیر ترین سے کہا کہ انہوں نے سفید کپڑے اس لیے پہنے ہیں تاکہ آپ مجھے کالے جادو والی عورت نہ سمجھیں۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ انہوں نے اسی رات سمجھ لیا کہ پی ٹی آئی میں ان کا مستقبل نہیں، اور بعد میں پارٹی چھوڑ دی، جلد ہی پی ٹی آئی کے اندر بھی یہ تاثر پھیل گیا کہ اگر کسی نے بشریٰ بی بی پر تنقید کی تو وہ پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔

برطانوی جریدے کی رپورٹ کے مطابق عون چوہدری بھی اسی وجہ سے زیرِ عتاب آئے، عمران خان نے انہیں حلف برداری سے چند گھنٹے پہلے پیغام بھیجا کہ بشریٰ بی بی نے خواب میں دیکھا ہے کہ اگر وہ تقریب میں موجود ہوں تو وہ شریک نہیں ہوں گی، اور اگلے دن عون چوہدری کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، گھر کے عملے اور قریبی ساتھیوں کے مطابق عمران خان سیاسی اور سرکاری فیصلوں سے پہلے بشریٰ بی بی سے رائے لیتے تھے اور ان کے کہنے پر لوگوں کی تصاویر بھیج کر چہرہ شناسی کرواتے تھے، یہاں تک کہ ایک بار فلائٹ چار گھنٹے تک رکی رہی، کیونکہ بشریٰ بی بی کے مطابق اڑان کا وقت موزوں نہیں تھا۔دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کے حساس ادارے کی بشریٰ بی بی میں دلچسپی کی پہلی علامت اُن کی عمران خان کے ساتھ خفیہ شادی کے فوراً بعد سامنے آئی،رپورٹ کے مطابق اگرچہ آئی ایس آئی نے یہ رشتہ نہیں کروایا تھا، لیکن ایسے اشارے ضرور موجود تھے کہ ادارہ اس تعلق سے فائدہ اٹھا رہا تھا، سابق انٹیلی جنس سربراہ جنرل فیض حمید نے بشریٰ بی بی کو نہایت باریک مگر مؤثر طریقے سے استعمال کیا،حساس ادارہ اپنے ایک افسر کے ذریعے آئندہ ہونے والے واقعات کی معلومات بشریٰ بی بی کے کسی پیر تک پہنچاتا، جو اُسے آگے بشریٰ بی بی تک منتقل کرتا اور یہ انفارمیشن بشریٰ بی بی عمران خان کے سامنے اپنی روحانی بصیرت سے حاصل معلومات کے طور پر پیش کرتی تھیں، جب وہ پیش گوئیاں درست ثابت ہوتیں تو عمران خان کا اپنی اہلیہ کی بصیرت پر یقین مزید پکا ہو جاتا۔

بشریٰ بی بی کے کردار پر اختلاف صرف سیاسی حلقوں تک محدود نہیں تھا، فوجی قیادت کے ساتھ عمران خان کے تعلقات بھی ایک مرحلے پر شدید کشیدگی کا شکار ہوگئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض سینئر اہلکاروں حتیٰ کہ جنرل باجوہ کو بھی شکایت تھی کہ عمران خان اپنی اہلیہ کی بات زیادہ سنتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ 2019 میں اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل عاصم منیر کی برطرفی کو بھی بشریٰ بی بی سے جوڑا جاتا ہے، 2022 میں اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی دونوں کے خلاف متعدد مقدمات قائم ہوئے، آج دونوں جیل میں ہیں۔پی ٹی آئی کے کچھ رہنما سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی عمران خان کو فوج کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کر سکتا ہے تو وہ بشریٰ بی بی ہی ہیں جو فوج سے مصالحت کی جانب جھکاؤ رکھتی ہیں لیکن عمران خان کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ ان کی بہن علیمہ خان سمیت پارٹی کے سخت گیر عناصر مصالحت کے خلاف ہیں۔

Shares: