پاکستان میں سابق وزیراعظم کی بیگم کو لے کر اکانومسٹ میں جادو ٹونے کی جو کہانی شائع ہوئی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل بھی سابق وزیراعظم کی بیگم کے بارے میں جادو ٹونے کی کہانیاں میڈیا پر آتی رہیں۔ لیکن موجودہ سٹوری کا الزام ایک ایسی شخصیت پر لگایا جا رہا ہے جو اس طرح کی چیزوں کو پسند ہی نہیں کرتے۔ پرویز رشید کو میں سالوں سے جانتا ہوں پرویز رشید آج بھی پاکستان کے ان چند سیاست دانوں میں شامل ہوتے ہیں جو دلیل، گفتگو، اصول اور برداشت کے قائل ہیں۔ انہوں نے کئی مرتبہ آزمائشیں دیکھیں، جیل کی صحبتیں برداشت کیں مگر راستہ وہی رکھا جو آئین، جمہوریت اور شہری آزادیوں سے جڑا ہوا تھا۔ پرویز رشید کی سیاست اس بات کی علامت ہے کہ طاقت کے بغیر بھی باوقار سیاست کی جا سکتی ہے۔ وہ سیاست کو صرف کھیل نہیں بلکہ ایک فکری اور اخلاقی ذمہ داری بھی سمجھتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ پی ٹی آئی اور کچھ صحافی اس شخص پر الزام لگا کر اپنی ذہنی پستی کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان میں سیاست کے معیار کو بلند کرنا ہے تو پرویز رشید جیسے رہنماؤں کی طرز فکر کو سمجھنا اور اپنانا ضروری ہے۔ سیاسی زندگی میں اختلافات اور تنازعات ناگزیر ہوتے ہیں مگر ان کا طریقہ سیاست ہمیشہ غیر جارحانہ، شائستہ اور مدلل رہا۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو کبھی ذاتی حملوں کا نشانہ نہیں بنایا ان کی گفتگو ہمیشہ سیاسی، فکری اور مذہبی رہی۔ پاکستان جیسے معاشرے میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنا آسان نہیں مگر پرویز رشید نے ہمیشہ کھل کر اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کیا ان کا بیانیہ ہمیشہ یہ رہا کہ ریاست کی ذمہ داری شہریوں کا مذہبی درجہ طے کرنا نہیں بلکہ ان کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔ یہی سوچ انہیں ایک روشن خیال، متعدل مزاج اور آئینی سیاست کے رہنما کے طور پر ممتاز کرتی ہے۔

پرویز رشید کو مسلم لیگ ن کے اندر ایک باوقار ساتھی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ وہ نواز شریف کے قریب ترین رفقاء میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان کی قربت محض سیاسی نہیں بلکہ فکری ہم آہنگی کی بنیاد پر مضبوط ہے۔ وہ ایک فکری سیاستدان ہیں کتاب اور دلیل کو سیاست کی طاقت پر فوقیت دیتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان پر کسی بھی مالی بدعنوانی یا کرپشن کا کبھی کوئی الزام نہ لگا نہ ثابت ہوا۔ وہ صاف ستھری سیاست کے نمائندہ رہنماؤں میں شامل ہوتے ہیں۔ ملکی سیاست میں فکری بلوغت، جمہوری مزاحمت اور شائستگی کے نمائندہ چہرے سمجھے جاتے ہیں پرویز رشید نہ جادو ٹونے کی اس بےہودہ رسموں کو تسلیم کرتے ہیں۔

اسلام نے جادو ٹونہ، فال گیری، نجومیوں سے پیشگوئیاں کروانے اور ماوراتی غیر شرعی طریقوں پر بھروسہ کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ قران مجید میں جادو کو گمراہ کن عمل قرار دیا گیا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص واقعی ایسی چیزوں پر یقین رکھتا ہے یا ان کا سہارا لیتا ہے یہ نہ صرف دین سے متصادم ہے بلکہ توحید کے عقیدے کے خلاف بھی سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکہ نے ترقی سائنس، تحقیق، تعلیم اور نظم و ضبط سے کی۔ یورپ نے ترقی صنعتی انقلاب، سیاست کے استحکام، اداروں کی مضبوطی اور معاشی نظم پر کی۔ چین، جاپان، کوریا، سنگاپور جیسے ممالک نے ٹیکنالوجی اور محنت کے ذریعے مقام پایا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک چاہے وہ سپرپاور ہو یا ترقی پذیر جادو ٹونے کے سہارے نہیں چلا قومیں صرف علم، محنت، قانون، انصاف اور مضبوط اداروں سے بنتی ہیں۔ ملکی سیاسی اور سماجی گفتگو کو اس سطح پر لایا جا رہا ہے کہ ملک کی قیادت کو جادو ٹونے کے زاویے سے دیکھا جائے یہ ایک غیر سنجیدہ اور غیر دانشدانہ انداز ہے۔ یہ قوم کی فکری سوچ کو نقصان پہنچاتی ہے ترقی کے مسائل، معیشت تعلیم، قانون، گورننس پیچھے رہ جاتے ہیں اور موضوع بحث جادو ٹونہ رہ جاتا ہے۔ حقیقی مسائل سے توجہ ہٹتی ہے لوگ دلیل کو چھوڑ کر افواہوں پر یقین کرنے لگتے ہیں۔ وطن عزیز کی اصل ضرورت مضبوط اداروں، سائنسی سوچ، تعلیم کی بہتری، انصاف کے نظام، سیاسی بلوغت، میڈیا میں ذمہ دارانہ گفتگو نہ کہ ایسی بحثوں کی جو قوم کی فکری پستی کو ظاہر کریں۔ اسلامی معاشرہ ہو یا جدید ریاست جادو ٹونہ کی بحثیں نہ دینی طور پر فائدہ مند ہیں نہ قومی سطح پر۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ان دعوؤں کو ہوش سے دیکھیں بلا تحقیق الزامات کو زبان نہ دیں اور بحث کو ایسے موضوعات کی طرف لے جائیں جو قوم کی ترقی کا سبب ہوں۔

Shares: