ڈھاکا: بنگلادیش کی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ، سابق وزیرِ داخلہ اسد الزمان خان کمال اور سابق آئی جی پی چوہدری عبداللہ المأمون کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کا فیصلہ عدالت نے سنا دیا

بنگلہ دیشی عدالت نے سابق وزیراعظم حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسد الزمان ملک کو سزائے موت سنادی، دونوں کو مہلک ہتھیاروں کے استعمال پر سزا سنائی گئی، عدالت سے تعاون پر سابق آئی جی عبداللہ مامون کی سزائے موت 5 برس قید میں تبدیل کردی،سابق وزیراعظم حسینہ واجد اور سابق وزیر داخلہ اسد الزمان ملک سے فرار ہوچکے ہیں، آج عدالت میں مرکزی ملزموں میں سے صرف سابق پولیس چیف موجود تھے،بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے انسانیت کیخلاف جرائم کے کیس میں سابق وزیراعظم کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں سنادیں۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل۔1 کی تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔ بینچ کی سربراہی جسٹس غلام مرتضیٰ موجمدار نے کی جبکہ دیگر اراکین میں جسٹس محمد شفیع الاسلام محمود اور جج محیط الحق انعام چودھری شامل ہیں۔

23 اکتوبر کو چیف پراسیکیوٹر محمد تاج‌ الاسلام اور اٹارنی جنرل محمد اسد الزمان نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے۔
ریاست کی جانب سے مقرر کردہ وکیل محمد امیر حسین نے ملزمان کی جانب سے جواب الجواب دلائل پیش کیے۔کارروائی کے دوران پراسیکیوشن ٹیم میں میزان الاسلام، غازی ایم ایچ تمیم، فاروق احمد، معین‌الکریم، اے بی ایم سلطان محمود اور دیگر وکلا بھی موجود رہے۔فیصلہ پہلے 13 نومبر کے لیے مقرر کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں اسے 17 نومبر تک مؤخر کر دیا گیا۔

22 اکتوبر تک ریاستی دفاع نے غیر حاضر ملزمان شیخ حسینہ اور اسد الزمان خان کمال کی جانب سے دلائل دیے، جبکہ موجود “شاہی گواہ” سابق آئی جی پی چوہدری عبداللہ المأمون کی طرف سے بھی مؤقف پیش کیا گیا۔پراسیکیوشن نے تینوں ملزمان کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا کا مطالبہ کیا تھا۔دفاع نے تین روزہ دلائل میں متعدد اہم گواہوں کی شہادتوں کو چیلنج کیا، جن میں چوہدری عبداللہ المأمون، روزنامہ امردیش کے ایڈیٹر محمود الرحمان اور نیشنل سٹیزن پارٹی کے کنوینر ناہید اسلام شامل ہیں،وکیل امیر حسین نے دعویٰ کیا کہ المأمون کا “تعاون” دباؤ کا نتیجہ تھا، جبکہ محمود الرحمان کے سیاسی نظریات نے ان کے بیان کو مشکوک بنا دیا۔بعد ازاں المأمون کے وکیل زاہد بن امجد نے بطور گواہ و ملزم الگ دلائل بھی دیے۔

10 جولائی کو کیس نے اس وقت حیران کن رخ اختیار کیا جب سابق آئی جی پی چوہدری عبداللہ المأمون نے جولائی،اگست تحریک کے دوران ہونے والی ہلاکتوں اور تشدد کی ذمہ داری قبول کر لی۔انہوں نے ٹربیونل کے روبرو بیان دیا “ہم پر قتل اور نسل کشی کے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ درست ہیں۔ میں جرم قبول کرتا ہوں۔ میں عدالت کی مدد کرنا چاہتا ہوں تاکہ مکمل حقیقت سامنے آ سکے۔”اسی روز ٹربیونل نے تینوں کے خلاف فردِ جرم باقاعدہ منظور کی اور رہائی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔

سابق وزیراعظم پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ ہے، استغاثہ نے شیخ حسینہ کے لیے سزائے موت کی درخواست کر رکھی ہے۔شیخ حسینہ کے خلاف عدالتی فیصلہ آنے پر بنگلادیش میں حالات خراب ہونے کے خطرے کے پیش نظر سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ نے فیصلے کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔خیال رہے کہ شیخ حسینہ پر 2024 میں طلبہ تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن کے احکامات دینے اور وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام ہے۔اقوامِ متحدہ کے مطابق مظاہروں کے دوران 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Shares: