عظیم الشان اجتماع عام جماعت اسلامی پاکستان جواکیس،بائیس،تئیس نومبر2025 ء کو مینارِپاکستان کے سائے تلے منعقد ہونے جا رہا ہے یقیناً اپنے معنوی اور نظریاتی پس منظر کے اعتبار سے ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ”بدل دو نظام“ کے جرات افروز سلوگن کے زیرِ سایہ یہ اجتماع ایک نئے عزم، نئی توانائی اور ایک اُٹھتے ہوئے شعور کی علامت بنتا دکھائی دیتا ہے۔ گٹھا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کا مینار بن جانے کا تصور صرف ایک استعاراتی پکار نہیں بلکہ ایک اجتماعی اُمید، ایک اجتماعی جدوجہد اور ایک اجتماعی بیداری کی علامت ہے جو قوم کے دلوں میں نئی زندگی پھونکنے کے لیے بے قرار ہے۔یہ اجتماع صرف سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ ایک فکری تسلسل، نظریاتی استقامت اور تحریکی سفر کا وہ قدم ہے جو کم و بیش ایک صدی کے فاصلوں پر محیط جدوجہد کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ولولہ انگیز، فکر انگیز اور غیر متزلزل قیادت نے جس قافلے کو روانہ کیا تھا، وہ قافلہ آج بھی اُسی جذبے، اُسی حرارت اور اُسی اخلاص کے ساتھ رواں دواں ہے۔ سیدمودودیؒ کا فکر، اُن کی تعلیمات اور اُن کا تصورِ انقلاب آج بھی اِس سفر کی بنیاد، سمت اور رُوح ہے۔اِسی فکری مشعل کو لے کر میاں طفیل محمدؒ نے جس سوزِ دروں، انکساری اور عزمِ راسخ کے ساتھ قافلے کی رہنمائی کی، وہ تاریخِ پاکستان کے تحریکی اور سیاسی سفر میں ایک روشن باب بن چکی ہے۔ پھر قاضی حسین احمدؒ کی جرات مندانہ قیادت نے جماعت اسلامی کے سفر میں نئی تیزی، نیا ولولہ، نئی توانائی اور نئی وسعتیں پیدا کیں۔ اِن کی خطابت، اِن کا عوامی رشتہ اور اِن کی فکری پختگی نے جماعت کو ایک نئی شناخت عطا کی۔ اِن کے بعد سید منور حسنؒ نے ایک مدبرانہ، متین اور عمیق بصیرت پر مبنی قیادت کا سلسلہ آگے بڑھایا جس نے جماعت اسلامی کے نظریاتی تشخص کو مزید استحکام بخشا۔ سراج الحق کی درویشانہ صفات اور نرم خو مگر پُرعزم قیادت نے جماعت کے حسنِ کردار اور خدمتِ خلق کے پہلو کو اور زیادہ نمایاں کیا۔آج اِس تسلسل کے بعد محترم حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی پاکستان کی صورت میں جماعت کے سامنے ایسی قیادت موجود ہے جس میں جرات بھی ہے وژن بھی ہے حکمت بھی ہے اور عمل کی برق رفتاری بھی۔ اِن کی شاہین صفت پرواز جماعت کے کارکنان اور عام لوگوں میں نئی اُمید پیدا کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ کراچی کی سیاست سے لے کر قومی سطح کے مسائل تک اِن کی جدوجہد نے اِنہیں ملک کے نوجوانوں، متوسط طبقے اور شہری مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنے والے طبقات کے دلوں میں مقبول کر دیا ہے۔ اِن کی قیادت میں ”بدل دو نظام“ کا نعرہ محض ایک سیاسی جذباتیت نہیں بلکہ تبدیلی کے ایک منظم، باوقار، سنجیدہ اور بامقصد راستے کی طرف دعوت ہے۔اِس عظیم اجتماع کے ناظم کہنہ مشق اور منجھے ہوئے سیاست دان لیاقت بلوچ ہیں جن کی سیاسی بصیرت، تنظیمی مہارت اور مزاج کی پختگی اِس اجتماع کو ایک نئی سمت، نئی توانائی اور متاثرکن نظم دے رہی ہے۔ اِن کی موجودگی اِس اجتماع کی وقعت اور اہمیت کو مزید بڑھا رہی ہے۔یہ اجتماع نہ صرف پاکستان کے اندر مایوسی کے اندھیروں کو چاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ انقلابِ اسلامی کی نوید، ایک نئی صبح کے آغاز اور قوم کے لیے اُمید کی کرن بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی، معاشی، سماجی اور تہذیبی صورتحال میں جب ہر سمت اضطراب، بے یقینی اور بے سمتی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ایسے میں یہ اجتماع ایک اجتماعی شعور کی بیداری، اتحادِ امت کی مضبوطی اور پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک نئی راہ کا تعین کر سکتا ہے۔اِس اجتماع میں نہ صرف ملک بھر سے لاکھوں افراد شرکت کریں گے بلکہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے قائدین بھی اِس میں شریک ہوں گے جو نہ صرف باہمی رشتوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنے گا بلکہ امتِ مسلمہ کے اندر وحدت، ہم آہنگی اور باہمی تعاون کا ایک نیا دور شروع کرنے کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجز، بحران اور اختلافات ایسے مواقع کا تقاضا کرتے ہیں جہاں ایک سنجیدہ، بامقصد اور نظریاتی بنیادوں پر قائم تحریک سب کو ایک ساتھ بٹھا کر مشترکہ لائحہ عمل سوچنے کا ماحول فراہم کرے۔یہ اجتماع پاکستان کے عوام میں بھی ایک ولولہ تازہ پیدا کرے گا۔ عام آدمی جو مہنگائی، معاشی عدم استحکام، بے روزگاری، ظلم، ناانصافی اور کرپٹ نظام سے تنگ آ چکا ہے اِسے ایک منظم، باکردار، اُصولی اور متبادل قیادت کا تصور فراہم کیا جائے گا۔ یہ احساس کہ قوم تنہا نہیں، یہ وطن محض مایوسی کی داستان نہیں بلکہ یہاں بھی ایک ایسا کردار موجود ہے جو اُمید دلانے، راستہ دکھانے اور عملی جدوجہد کے ذریعے ایک روشن مستقبل کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مینارِ پاکستان کا تاریخی مقام اِس اجتماع کی معنویت کو مزید گہرا کرتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ایک تاریخی قرارداد نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ آج وہی مقام ایک نئی قرارداد، ایک نئے عزم، ایک نئے سفر اور ایک نئی تبدیلی کی طرف خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ یہ اجتماع اِس بات کا اعلان ہے کہ قوم ایک بار پھر اپنی توانائی، اپنی وحدت، اپنے شعور اور اپنی دینی و قومی ذمہ داری کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اگر یہ اجتماع اپنے مقاصد، اپنی روح اور اپنے سلوگن کے مطابق کامیاب ہوتا ہے تو یقیناً یہ پاکستان کے لیے وہ موڑ ثابت ہو سکتا ہے جس کے بعد قوم اپنی راہیں خود متعین کرے، اپنی منزلیں خود چنے اور اپنے مستقبل کو نئی روشنیوں سے ہمکنارکر دے۔ جماعت اسلامی کی جدوجہد،اِس کی قیادت کی مسلسل قربانیاں اور اِس کا نظریاتی استحکام پاکستان کے لیے ایک نعمت بن سکتا ہے بشرطیکہ قوم اِس بیداری کے لمحے کو پہچانے اور اِسے مضبوطی کے ساتھ تھام لے۔یہ اجتماع نہ صرف جماعت اسلامی کے لیے بلکہ پاکستان کے لیے ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ یہ اُمید کی نوید بھی ہے جدوجہد کی علامت بھی اور تبدیلی کا اعلان بھی۔ اگر قوم نے اِس پکار کا مثبت جواب دیا تو یہ اجتماع واقعی اندھیروں میں روشنی کا مینار ثابت ہو سکتا ہے۔وہ روشنی جو آنے والی نسلوں کے لیے تابناک مستقبل کی خبر بھی دے اور راستہ بھی دکھائے

Shares: