سستے اناروں کے بدلے پاکستانی خون، نامنظور!
تحریر:ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بڈانی
جب سے تورخم اور چمن بارڈر بند ہوئے ہیں، بازاروں میں انار کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ ایک کلو انار جو کابل میں دس روپے کا مل رہا ہے، لاہور، کراچی اور پشاور میں ڈیڑھ سے دو سو روپے تک پہنچ چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ مذاق اڑا رہے ہیں کہ "انار تو سونا ہو گیا”۔لیکن یہ مذاق نہیں، خون ہے۔ ہر وہ انار جو سرحد پار سے آتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک گولی بھی آتی ہے جو کسی پاکستانی سپاہی کے سینے میں لگتی ہے۔ ہر وہ سیب اور انگور کا ٹرک جو افغانستان سے گزرتا ہے، اس کے نیچے شاید کوئی دھماکہ خیز مواد چھپا ہو تاہےجو ہمارے شہروں میں پھٹتا ہے۔
اس لیے واضح پیغام ہے کہ سستے اناروں کے بدلے پاکستانی خون، نامنظور!
رواں سال میں اب تک فتنہ الخوارج تحریکِ طالبان پاکستان نے 1300 سے زائد دہشت گرد حملے کیے ہیں۔ ان میں 1600 سے زیادہ پاکستانی شہید اور 2500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کوئی تھنک ٹینک کی رپورٹ نہیں، یہ ہمارے قبرستانوں کی حقیقت ہے۔ ہر حملے کے پیچھے افغانستان کے اندر موجود محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جہاں TTP، القاعدہ اور داعش خراسان کے دہشت گرد آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں، تربیت لے رہے ہیں، ویڈیوز بنا رہے ہیں اور سرحد پار کر کے ہماری گردنوں پر چھری چلا رہے ہیں اور بم پھوڑ رہے ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے 2021 میں جب امریکی چلے گئے تو ہم نے سوچا تھا کہ شاید امن ہو جائے گا۔ ہوا کیا؟ دو سال کے اندر TTP نے دوبارہ سر اٹھایا اور آج ہم 2014 سے بھی بدتر صورتحال میں کھڑے ہیں۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر جو کنٹینرز آتے ہیں، ان میں سے کتنے واقعی سامان لے کر آتے ہیں اور کتنے اسلحہ، دھماکہ خیز مواد اور منشیات؟ 2024-25 میں پاکستانی کسٹمز نے متعدد کنٹینرز پکڑے جن میں ہیروئن، شیشہ، جدید اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد ملا۔ یہ سب "افغان ٹرانزٹ ٹریڈ” کے نام پر بھارت اور دیگر ممالک سے آ رہا تھا اور راستے میں ہماری سڑکوں، ہماری فوج اور ہمارے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
اب جب سرحد بند کی گئی تو افغان تاجر چیخ رہے ہیں کہ "ہمارا کاروبار تباہ ہو گیا”۔ اچھا۔ تو کیا ہم اپنے بچوں کی لاشیں گن کر کاروبار کریں؟
افغانستان کے پاس ایران کا چاہ بہار پورٹ ہے، ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے راستے ہیں۔ رواں سال ہی افغانستان نے ایران کے راستے 1.6 بلین ڈالر کی تجارت کی جبکہ پاکستان کے راستے صرف 1.1 بلین ڈالر کی۔ یعنی متبادل موجود ہے، بس وہ تھوڑا مہنگا ہے۔
کیا ہمارا خون سستا ہے..؟ ،کیا ہمارے اور ہمارے بچوں اور خاندانوں کے خون کی کوئی اہمیت نہیں ہے ..؟،نہیں ہماراخون بہت قیمتی ہے،جس کی قیمت کوئی نہیں چکا سکتا،
جب سے ہم نے سرحد بند کی تو کابل میں انار کی قیمت دس روپے کلو سے پانچ روپے کلو تک پہنچ گئی ،اس کے برعکس پشاور میں دو سو روپے تک چلی گئی۔ یہ فرق صرف پھل کی قیمت کا نہیں، یہ زندگی اور موت کا فرق ہے۔
کابل میں بیٹھے طالبان حکمران کہتے ہیں کہ "TTP پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے”۔ اچھا۔ تو پھر ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ افغان انار، آلو، سیب، انگور، قالینیں اور لاجورد تو یہ سب افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے،ہمارا کیا ہے۔ ہمارے کسان، ہماری مارکیٹیں، ہمارے گودام بھرے پڑے ہیں۔ ہم بغیر افغان پھلوں کے بھی جی لیں گے، لیکن اپنے بچوں ،اپنے خاندانوں کے بغیر نہیں جی سکتے۔
طالبان کو یاد رکھنا چاہیے کہ 2021 سے پہلے پاکستان نے ان کی بہت مدد کی تھی۔ ان کے زخمیوں کا علاج ہمارے ہسپتالوں میں ہوا، ان کے رہنما ہماری سرزمین پر رہے، ان کی فیملیاں یہاں رہیں۔ اب جب وہ اقتدار میں ہیں تو وہی پرانی "اسٹریٹجک ڈیپتھ” والی پالیسی چلا رہے ہیں۔ یہ پالیسی نہیں چلے گی۔
اب پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ یا تو TTP کو ختم کرو، یا ہم خود ختم کریں گے… چاہے سرحد پار جا کر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
آج پشاور کا بچہ، کوئٹہ کی ماں، کراچی کا تاجر، لاہور کا طالب علم ، سب ایک ہی زبان بول رہے ہیں کہ "ہم اپنے فوجیوں کی لاشوں کی قیمت پر انار نہیں کھائیں گے” "ہم اپنے بچوں کی شہادت کی قیمت پر سیب نہیں کھائیں گے” "ہم اپنوں کے خون کی قیمت پر کوئی تجارت نہیں کریں گے”
یہ کوئی سیاسی بیان نہیں، یہ قومی ضمیر کا بیان ہے۔
سرحد پر کھڑا پاکستانی سپاہی سردی میں کانپ رہا ہے، گرمی میں پسینے سے شرابور ہے، گولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے۔ وہ اپنی جان دے رہا ہے تاکہ ہم اپنے گھروں میں چین سے سو سکیں، اپنے بچوں کو سکول بھیج سکیں، اپنی بیٹیوں کی شادیاں کر سکیں۔
اس کی قربانی کی قیمت پر انار، انگور اور سیب کی کوئی تجارت قبول نہیں۔
جب تک افغانستان میں TTP کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، جب تک سرحد پار سے ہماری گردنوں پر چھری چلتی رہے گی، جب تک ہماری ماؤں کے آنسو نہیں رکیں گے، تب تک سرحد بند رہے گی۔ تب تک ایک دانہ بھی اندر نہیں آئے گا۔
پاکستانی خون کے بدلے انار؟ یہ سودا ہمیں منظور نہیں!
سب سے پہلے پاک فوج اور عوام . پاکستان زندہ باد!









