دنیا بظاہر جتنی وسیع نظر آتی ہے، انسانی جذبات اور رجحانات کی دنیا اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ وقت کے ساتھ نظریات بدلتے ہیں، رویّے ڈھلتے ہیں، اور معاشرتیں نئے سوالوں کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں بھی ایک ایسا موضوع زیرِ بحث ہے جو اکثر غلط فہمیوں، جذباتی ردِعمل، اور معلومات کی کمی کا شکار رہتا ہے ہم جنس رجحانات،ہم جنس پرستی۔ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسے سنجیدگی، حکمت، اور علمی توازن کے ساتھ دیکھیں، نہ کہ نفرت، الزام یا خوف کے زاویے سے۔

پاکستانی معاشرے میں معلومات، میڈیا، اور انٹرنیٹ کے بے تحاشا پھیلاؤ نے نوجوان نسل کو بے شمار عالمی رویّوں سے روشناس کر دیا ہے۔ ایسے میں بعض نوجوان جسمانی بلوغت، ذہنی الجھنوں، یا تشنۂ توجہ کے باعث بعض ایسے رجحانات کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں جن کی اصل وجوہات وہ خود بھی نہیں سمجھتے۔تاہم یہ سمجھنا لازم ہے کہ ہم جنس رجحان کسی ایک وجہ سے پیدا نہیں ہوتا،اس کے پیچھے کئی نفسیاتی، سماجی، اور بعض صورتوں میں طبی عوامل بھی کارفرما ہو سکتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ہم جنس رویّوں کو صرف "فیشن”، "بگاڑ” یا "مغربی اثر” قرار دیتے ہیں۔ مگر حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔اصل تشویش نوجوانوں کی اخلاقی، ذہنی، اور جسمانی سلامتی ہے،نہ کہ کسی فرد کی ذاتی شناخت یا اس کے احساسات،یہ بھی ضروری ہے کہ ہم کسی بھی انسان کی تذلیل یا نفرت انگیزی سے بچیں۔ نفرت کبھی اصلاح نہیں لاتی، بلکہ بگاڑ کو بڑھاتی ہے۔ نوجوانوں کو صحیح رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، لیبلز اور طعنوں کی نہیں۔

وہ نوجوان جو کم عمری میں کسی جسمانی یا جذباتی تجربے سے گزریں، بعد میں شدید ذہنی پریشانی یا شناختی کشمکش کا شکار ہو سکتے ہیں۔ایسے نوجوان اکثر یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ان کے جذبات کی نوعیت کیا ہے، اور معاشرہ ان سے کیا چاہتا ہے۔ نتیجتاً وہ خاموش تنہائی یا خوف میں رہنے لگتے ہیں۔اصل نقصان "رجحان” نہیں بلکہ غیر ذمہ دارانہ یا استحصالی تعلقات ہیں،چاہے وہ ہم جنس ہوں یا مخالف جنس،ان میں جذباتی شکاری ، بلیک میلنگ، یا نقصان دہ رویّے شامل ہو سکتے ہیں۔نوجوانی وہ دور ہے جہاں انسان جذبات، جسم اور ذہن کے نئے دروازے کھلتے محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں کئی عوامل نوجوان کو عارضی یا وقتی ہم جنس کشش کی طرف لے جا سکتے ہیں،گھر میں بے توجہی، سختی یا جذباتی تنہائی نوجوان کو ایسے لوگوں کی طرف دھکیل سکتی ہے جو اسے فوری توجہ اور قبولیت دیں۔بعض اوقات گہری دوستی جذباتی انحصار میں بدل جاتی ہے، اور نوجوان بغیر سمجھے اسے رومانوی کیفیت سمجھ لیتے ہیں۔کم عمری میں کسی اذیت ناک تجربے کے باعث ذہن بعض اوقات اپنے ردعمل میں عارضی یا مستقل بدلاؤ پیدا کر لیتا ہے۔آن لائن مواد ذہن کو فریب دے سکتا ہے، خاص طور پر جب نوجوان کو صحیح رہنمائی نہ مل رہی ہو۔

نوجوان دورِ جدید میں اپنی "شناخت” کو تلاش کرنے کے لیے اکثر جذبات کو امتحان سمجھتے ہیں۔نوجوان نسل کو صرف منع کردینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی حفاظت کا راز مکالمے، اعتماد اور تربیت میں ہے۔اگر بچہ والدین سے ہر بات کھل کر کر سکے تو وہ غیر صحت مند تعلقات کی طرف کم جائے گا۔ جنسی تعلیم یہ تعلیم بے حیائی نہیں، بلکہ تحفظ ہے۔نوجوان کو یہ جاننا ضروری ہے جسم کی حدود کیا ہیں؟کون سی دوستی اچھی اور کونسی درست نہیں ہے؟بلیک میلنگ کیا ہوتی ہے؟آن لائن کیا خطرات چھپے ہیں؟مضبوط مذہبی اور اخلاقی بنیاد نوجوان کو مضبوط کردار عطا کرتی ہے۔لیکن یہ تربیت محبت سے ہو،دھمکی یا خوف سے نہیں۔اسکول اور کالج کی فضا کو محفوظ اور مثبت بنانا ضروری ہے، تاکہ وہاں کوئی بچہ تنہا یا غیر محفوظ محسوس نہ کرے۔اگر کوئی نوجوان شدید الجھن، ڈپریشن یا خوف کا شکار ہو تو اسے فوراً تربیت یافتہ سائیکالوجسٹ تک پہنچانا چاہیے۔یہ کوئی "کمزوری” نہیں بلکہ ذہنی صحت کی حفاظت ہے۔

ہماری ذمہ داری یہ نہیں کہ کسی نوجوان پر لیبل لگا دیں۔ بلکہ اسے سمجھیں،اس کے خوف کو سنیں،اس کی غلطیوں پر شفقت سے اصلاح کریں،اور اسے محفوظ راستہ دکھائیں،جو معاشرہ گفتگو کے دروازے بند کر دے، وہاں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔جو معاشرہ محبت اور حکمت کے ساتھ رہنمائی کرے، وہاں کردار مضبوط ہوتے ہیں۔ہم جنس رجحانات کا موضوع صرف تنقید یا جذباتی بحث کا معاملہ نہیں۔ یہ ہمارے نوجوانوں کی ذہنی کیفیت، ان کی شناخت، اور ان کی حفاظت سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔اسے حل کرنے کے لیے نہ نفرت کی ضرورت ہے، نہ خوف کی،بلکہ علم، حکمت، اور انسان دوستی کی ضرورت ہے۔اگر ہم نوجوان نسل کو محبت، رہنمائی، اعتماد اور مضبوط اخلاقی بنیاد فراہم کریں، تو وہ خود بخود صحت مند راستے کا انتخاب کرے گی۔معاشرتی اصلاح کا واحد صحیح راستہ دل کے دروازے کھولنا، مکالمہ قائم رکھنا، اور ہر انسان کی عزت کو مقدم رکھنا ہے۔

Shares: