ذہنی معذور لڑکی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ، جس نے ہمیں انسانیت کے درد اور معاشرتی ذمہ داریوں کی تلخ یاد دلائی۔ مگر ایسے ہی لمحوں میں ایک روشنی بھی نمودار ہوتی ہے، انصاف کی راہ پر قدم بڑھانے والے پولیس افسران، اور وہ ادارہ جو غنڈہ گردی اور ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے۔ آج ہم اسی دو جہتی منظرنامے پر چراغ ڈالیں گے ایک طرف ظلم کی وحشت، دوسری طرف پولیس کی زمینی اور ضمیری کامیابی ملے گی
بدقسمتی کی انتہا تب ہوتی ہے، جب کوئی ایسا دل زخمی ہوتا ہے جو خود اپنی پوری حفاظت کرنے سے قاصر ہو۔لاہور میں ذہنی معذور لڑکی کے ساتھ اس زیادتی کا واقعہ محض ایک جرم نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کی دھڑکنوں میں باس مل جانے والی چوٹ ہے۔ ایک معصوم، کمزور وجود کو بہانے سے ورغلا کر، کرایہ کے کوارٹر میں زندگی کا ایک ایسا سبھا کر دینا ، یہ انسانی کمزوری کا استحصال ہے، طاقت اور اعتماد کی زیادتی ہے، اور سب سے بڑھ کر ایک معاشرتی سانحہ ہے۔یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زیادتی صرف جسمانی حدوں کو عبور نہیں کرتی، بلکہ روح کو بھی زخمی کرتی ہے۔ یہ ظلم ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف اس کی آواز سنیں، بلکہ اسے یقین دلائیں کہ انصاف ممکن ہے، اور وہ تنہا نہیں ہے۔

اسی اندوہناک تصویر میں ایک تابناک کردار سامنے آتا ہے ، لاہور پولیس، اور خاص کر ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران، ان کا فوری نوٹس لینا اور اس واقعہ پر خصوصی ٹیم تشکیل دینا، ایک عزمِ بیدار انسانیت کا مظہر ہے۔ ایسے افسران کی موجودگی بتاتی ہے کہ پولیس صرف طاقت کا زرخریدہ ہتھیار نہیں، بلکہ ایک ضمیر دار ادارہ بھی ہو سکتی ہے جو مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی قسم کھا چکا ہے۔اس واقعہ میں، کوٹ لکھپت ٹیم کی قیادت ایس پی ماڈل ٹاؤن شہربانو نقوی نے نہ صرف پیشہ ورانہ مہارت دکھائی بلکہ ہمت اور عزم کا مظاہرہ بھی کیا۔ ملزم کی گرفتاری،جو کرایہ کے کوارٹر میں لڑکی کو ورغلانے اور زیادتی کرنے والا تھایہ بتاتی ہے کہ پولیس نے کسی قسم کی کوتاہی کو برداشت نہیں کیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کا استعمال، ملزم کے ہسپتال آنے اور فرار ہونے کے مناظر کی شناخت، سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ تفتیش نہ صرف سنجیدہ تھی بلکہ جدید انداز میں کی گئی۔اور پھر، ملزم کو جنڈر کرائم سیل کے حوالے کرنا یہ ایک سنجیدہ اور درست اقدام ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ پولیس محض گرفتاری پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ قانونی، ماہر اور حساس انداز سے انصاف کے راستے کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتی ہے۔

ایسی گھمبیر اور تکلیف دہ داستانوں میں ہمیں وہ روشنی تلاش کرنی چاہیے جو ناامیدی کے اندھیرے کو چیر دے۔ پولیس کی جانب سے فوری کارروائی اور قانونی تقاضوں کا احترام کرنا، ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ معاشرتی نظام نے اپنی ذمہ داری نبھانی شروع کردی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایسے واقعات کو خاموشی سے برداشت نہیں کیا جائے گا، اور معاشرہ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ ظلم کے خلاف صرف انصاف کی نہیں، بلکہ انسانی وقار کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ جب پولیس ایک معذور لڑکی کی حفاظت میں قدم اٹھاتی ہے، تو وہ اعلان کرتی ہے کہ ہر انسان کی عزت مقدس ہے، اور کوئی جرم چھوٹے درجے کا تصور نہیں کیا جائے گا۔بچیوں اور معذور افراد پر ہونے والی زیادتی ہماری معاشرتی وجدان کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ یہ جرم صرف ایک فرد کی بربادی نہیں، بلکہ پوری آبادی کی اخلاقی تشویش ہے ، یہ سوال ہے کہ ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں کمزوروں کو تحفظ ملتا ہے یا نہیں۔ ایسے میں پولیس کا ٹھوس اور بروقت کارنامہ، ہمیں بتاتا ہے کہ جرم کے خلاف ہمارا موقف کمزور نہیں، بلکہ پختہ اور پرعزم ہے۔ہمیں اپنے طور پر بھی ذمہ دار رہنا ہوگا۔ ہمیں بچوں کی حفاظت کے طور پر سبق سکھانا ہے، معذور اور کمزور افراد کے حقوق کو اجاگر کرنا ہے، اور معاشرتی شعور کو بلند کرنا ہے تاکہ ایسے جرائم پر پردہ نہ چُھپا رہے، بلکہ وہ فوری طور پر منظرِ عام پر آئیں اور ان کے مرتکب کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر پیش کیا جائے۔
فیصل کامران جیسے افسران ہماری امید کا ستون
انسانی داستانوں میں ایسے روشن کردار کم ہی ملتے ہیں جو انصاف کی راہوں پر نہ صرف رہنمائی کرتے ہیں بلکہ خود وہی روشنی بن جاتے ہیں۔ ڈی آئی جی فیصل کامران کا کردار اس سانحہ میں ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ پولیس صرف طاقت کا اظہار نہیں، بلکہ انصاف کی ضمانت بھی بن سکتی ہے۔ ان کی فعالیت، عزم، اور حساسیت ، یہ سب ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ صرف ایک عہدہ نہیں، بلکہ ایک ضمیری آواز ہیں۔ان کی قیادت میں بنائی گئی ٹیم نے ہمیں یہ محسوس کروایا ہے کہ انصاف ایک خواب نہیں، حقیقت ہے۔ اگر ادارے مضبوط ہوں اور پولیس افسران اپنا فرض نبھائیں، تو وہ سنگین جرائم کا سدِ باب کر سکتے ہیں اور معاشرے کو ایک بہتر سمت پر گامزن کر سکتے ہیں۔

یہ واقعہ ایک زخم ہے جو ہماری انسانیّت پر گرا ہے، مگر پولیس کی کارکردگی نے وہ مرہم فراہم کیا ہے جو دل کو کچھ سکون دے سکتا ہے۔ ہمیں اس سکون کو صرف محسوس نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے ایک تحریک میں بدلنا چاہیے۔ ہمیں چاہیئے
آگاہی بڑھائیں ، معذور افراد کی حفاظت اور ان کے حقوق کے بارے میں شعور پھیلائیں۔شکایات کی راہ ہموار کریں ، ایسے واقعات کی اطلاع دینے والے ہر فرد کو یہ یقین دلائیں کہ انصاف ممکن ہے۔ ان افسران کی حوصلہ افزائی کریں جو ضمیری اور پیشہ ورانہ طور پر انصاف کی راہ پر چلتے ہیں، جیسے فیصل کامران اور ان کی ٹیم، ہر گھر، ہر سکول، اور ہر محلہ ایک ایسا کلچر بنائے جہاں کمزوروں کا تحفظ اولین ترجیح ہو۔









