پاکستانی میڈیا کے سفر پر نظر ڈالیں تو یہ صرف چینلز کے اضافے اور اسکرینوں کی چمک دمک تک محدود نہیں بلکہ یہ ارتقائی عمل کئی نظریاتی لڑائیوں، ریاستی و سیاسی دباؤ، معاشی چیلنجز اور پیشہ ورانہ اصولوں کی بقا کی جدوجہد سے عبارت ھے۔ ایسے ماحول میں وہ صحافی اور اینکر زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جو محض ٹی وی کی روایتی سرگرمی تک محدود نہ رہیں بلکہ اپنے کردار، طرزِ فکر، تحقیق، سوال کی نوعیت اور عوامی اثر کے اعتبار سے ایک الگ شناخت قائم کریں۔ مبشر لقمان کا نام اسی زمرے میں آتا ھے جہاں شخصیت نسبتاً متنازع سہی مگر پیشہ ورانہ اثر انگیزی اپنی جگہ واضح، معروضی اور ناقابل انکار دکھائی دیتی ھے۔ اسی تناظر میں انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جانا ایک علامتی اور معنوی فیصلہ ھے جس کے اثرات صرف شخصی اعتراف تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ میڈیا کے اندر جرأت انگیزی کی اقدار کے لیے ایک ریفرنس پوائنٹ کے طور پر بھی تسلیم کیے جائیں گے۔

پاکستان میں صحافتی پیشہ ہمیشہ طاقت، دباؤ، وقعت، سازش، اور انسدادِ آزادی کے باہمی تصادم کا مرکز رہا ھے۔ یہاں وہ صحافی زیادہ کامیاب سمجھے جاتے ہیں جو گفت و شنید میں مہارت، حکمت عملی، نرم لفاظی اور ادارہ جاتی مفادات کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں، مگر کچھ صحافی اس روایتی لائن سے ہٹ کر سخت سوالات اور ہدفی تحقیق کے ذریعے خود کو اسٹیٹس کے مقابل رکھتے ہیں۔ مبشر لقمان اسی اسلوب کے نمائندہ صحافی ہیں جنہوں نے میڈیا کی پوزیشننگ کی بجائے اپنی شناخت کو ترجیح دی۔ یہ طرز عمل ان کے لیے پیشہ ورانہ سطح پر ریپیوٹ، اثر اور شناخت کا سبب بنا مگر ساتھ ہی تنقید، تنازع اور مزاحمت کا محرک بھی رہا۔ یہی وہ تقابلی تناظر ہے جو انہیں دیگر روایتی اینکرز سے ممتاز کرتا ہے۔

پاکستان میں انویسٹی گیٹو صحافت کی حیثیت بیشتر اوقات سیاسی نتیجہ خیزی کے بغیر صرف تفریحی جھٹکے کی صورت میں سامنے آتی ھے، مگر مبشر لقمان نے اپنی نشریاتی حکمت عملی میں تحقیق، نکات کی تسلسل، فیکٹ بیس رپورٹنگ اور اسٹیٹ پرفارمنس کے سوالات کو مرکزی حیثیت دی۔ ان کا مقصد صرف خبریں پہنچانا نہیں بلکہ سوال کے نتائج کو اداروں، پالیسی سازوں اور طاقت کے مراکز پر اثر انداز کرنا تھا۔ یہی نقطہ انہیں قابلِ اعتراض بھی بناتا ھے اور قابلِ توجہ بھی۔

یہ بھی قابل ذکر ھے کہ انہوں نے ڈیجیٹل جرنلزم کی پاکستان میں اہمیت کو کافی پہلے پہچان لیا تھا۔ جب زیادہ تر صحافی ٹیلی ویژن کی ریٹنگ کو اپنی واحد ترجیح سمجھ رھے تھے، مبشر لقمان نے ناظرین کو حقیقت پسندانہ مواد کی فراہمی کا آغاز کیا۔ اس عمل نے انہیں محض ایک ٹی وی اینکر سے ڈیجیٹل میڈیا پالیسی انفلوئنسر میں تبدیل کر دیا۔ یہ تبدیلی مستقبل کے میڈیا میں ترقی کا وہ رخ دکھاتی ھے جہاں کنٹرولڈ ایڈیٹوریل بورڈ کی بجائے پبلک ڈائریکٹ رسپانس میڈیا فیصلہ کن مقام رکھتا ھے۔

صحافی کی زندگی صرف سچ بولنے یا حقیقت دکھانے سے پیچیدہ نہیں بنتی بلکہ اصل پیچیدگی اس بات میں ھے کہ سچائی کے نشر کیے جانے کے بعد اس کے اثرات کیسے مرتب ہوتے ہیں۔ مبشر لقمان نے جہاں سوالات اٹھائے وہاں انہیں اس بات کا علم تھا کہ نتائج صرف عوامی بحث پر نہیں رکیں گے بلکہ طاقت کے مراکز تک بھی جائیں گے۔ یہی پیشہ ورانہ حاضر دماغی انہیں نظریاتی صحافت کے خانے میں بھی اہم بناتی ھے۔
میرے مطابق ان کا انداز زیادہ صریح، تلخ اور براہ راست ھے جس کی وجہ سے بعض اوقات تاثر حقیقت پر غالب محسوس ہوتا ھے، مگر اصل بحث یہ ھے کہ سوال کس بنیاد اور شواہد پر رکھا گیا ھے۔ بین الاقوامی سطح پر ٹرائل اینڈ انویسٹی گیٹو جرنلزم کے درمیان فرق سمجھنا ضروری ھے۔ پاکستان میں میڈیا ریٹنگ سسٹم آج بھی زیادہ تر ہائی ڈرامہ مواد کو ترجیح دیتا ھے جبکہ مبشر لقمان کا پاور پالیٹکس انکویری ماڈل الگ نوعیت رکھتا ھے۔

صحافت کی عالمی تاریخ میں ایسے کردار کم نہیں جنہوں نے سوال کی حرارت کو پیشہ ورانہ معیار بنایا۔ امریکی صحافی باب ووڈورڈ اور کارل برنسٹین نے واٹر گیٹ اسکینڈل کے ذریعے انویسٹی گیٹو جرنلزم کو نئی پہچان دی اور وسطِ مشرق کے طاقت اور انسانی حقوق کے تضادات پر سوال اٹھائے، جبکہ جولیان اسانج اور ایڈورڈ سنوڈن نے ملٹی نیشنل سسٹمز میں چھپے ڈیٹا اور انٹیلی جنس پالیسیوں کو منظر عام پر لایا۔ ڈیوڈ فراسٹ نے نکسن انٹرویوز کے ذریعے مکالمے کو احتساب کا فن ثابت کیا۔ یہ تمام مثالیں یہ بتاتی ہیں کہ انویسٹی گیٹو صحافت کسی ایک ملک کی روایت نہیں بلکہ عالمی فکری مہم کا حصہ ھے۔ اسی تناظر میں مبشر لقمان کی صحافت کا اسلوب مقامی میڈیا کے روایتی انداز سے کچھ مختلف دکھائی دیتا ھے، جہاں سوال کی جسارت اور جواب کی سماجی قیمت ایک ہی سطح پر رکھی گئی ھے۔

جب پاکستانی میڈیا کا مرکز محض ٹی وی ریٹنگ سسٹم تک محدود تھا، تب مبشر لقمان نے ڈیجیٹل میڈیا کو مستقبل کا فیصلہ کن میدان سمجھا۔ ان کا ایک ڈیجیٹل پبلک ڈائریکٹ میڈیا ماڈل ھے جو عالمی پلیٹ فارمز جیسے VICE، AJ+, BBC Trending، Vox سے ہم آہنگ نظر آتا ھے۔ اس ماڈل میں صحافی کا واسطہ ریٹنگ ڈیسک سے نہیں بلکہ براہ راست عوامی ردِ عمل سے ھوتا ھے، جو عالمی سطح پر ریسپانس جرنلزم کہلاتا ہے۔ اس طرح کا ماڈل صحافی کو محض خبریں پہنچانے والا نہیں بلکہ میڈیا آرکیٹیکٹ بناتا ھے، اور یہی تبدیلی مبشر لقمان کی ٹائم لائن میں واضح ھے۔

تاریخ بتاتی ھے کہ طاقت کو سوال کبھی پسند نہیں آتا، چاہے دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو۔ امریکی صحافیوں کو پینٹاگون لیکس پر عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا، برطانوی رپورٹرز کو رازداری قوانین نے ٹکرایا، عرب صحافیوں کو انسانی حقوق کے لیے اپنی جان کی قیمت چکانی پڑی، یورپی رپورٹرز کو کارپوریٹ لابیز کا سامنا کرنا پڑا، اور پاکستانی صحافیوں کو پالیسی، دباؤ اور پراکسی بیانیے کے ساتھ ہموار ھونا پڑا۔ یہ وہ عالمی حقیقت ہے جو مبشر لقمان کے پیشہ ورانہ سفر کے تناظر میں بھی نظر آتی ھے، جہاں سوال کا وزن جواب کی قیمت سے زیادہ بھاری رہتا ھے۔

پاکستانی میڈیا کا مستقبل کیمرہ کی بے ساختگی یا الفاظ کی چمک میں نہیں بلکہ تحقیق کی تہ داری، سوال کے منطقی زاویے، فیکٹ بیسڈ رپورٹنگ اور ڈیجیٹل انٹرایکٹیو جرنلزم میں ھے۔ جو صحافی مواد کو مشاہداتی سچائی کے ساتھ جوڑیں گے وہ آنے والے عالمی میڈیا ماڈلز میں جگہ بنائیں گے۔مبشر لقمان کی نامزدگی پر رائے مختلف ہو سکتی ھے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے پاکستانی صحافت میں سوال کی قیمت، ڈیجیٹل ڈائریکشن اور انویسٹی گیٹو ڈائنامکس کو ایک تاریخی کیس اسٹڈی کی صورت دے دی ھے۔ اعتراف ہمیشہ تالیاں نہیں بلکہ وقت اور اثرات دیتے ہیں، اور یہی اصل Lifetime Achievement ھے۔

Shares: