آسمان کی جنگ: جے ایف-17 بمقابلہ تیجس، چشم کشا حقائق
دبئی ایئر شو حادثہ، برآمدات کی دوڑ اور پاک بھارت فضائیہ کی اصل کارکردگی
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
21 نومبر 2025 کو دبئی ایئر شو کے دوران جب بھارتی ہلکا جنگی طیارہ تیجس Mk-1 ایروبیٹکس میں نیگیٹو جی منوور کرتے ہوئے اچانک گر کر تباہ ہوا اور اس کا پائلٹ ہلاک ہو گیا تو یہ محض ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ بھارت کے طویل ترین دفاعی پروگرام کی ایک اور ناکامی کا اعلان تھا۔ یہ تیجس کا دوسرا تصدیق شدہ حادثہ تھا۔ پہلا حادثہ 12 مارچ 2024 کو راجستھان کے جیسلمیر کے قریب تربیتی پرواز کے دوران پیش آیا جب GE F404 انجن میں تیل پمپ کی ناکامی کے باعث طیارہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ ایک سال کے اندر دو طیارے کھو دینا، وہ بھی اس وقت جب بھارت اسے “آتم نربھرتا بھارت” اور “میک ان انڈیا” کی سب سے بڑی علامت قرار دے رہا ہو، یقینی طور پر سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔

اسی ایئر شو میں چند سو میٹر کے فاصلے پر پاکستان کا جے ایف-17 تھنڈر بلاک III نہ صرف شاندار مظاہرہ کر رہا تھا بلکہ ایک دوست ملک(جس کانام ظاہر نہیں کیا گیا) کے ساتھ نئے معاہدے پر دستخط بھی ہو رہے تھے۔ چند ماہ قبل ہی جون 2025 میں پاکستان ایئروناٹیکل کمپلیکس (PAC) کامرہ نے آذربائیجان کو 40 جے ایف-17 بلاک III طیاروں کی فروخت کا 4.6 ارب ڈالر کا معاہدہ طے کیا تھا، جس میں جدید KLJ-7A AESA ریڈار، PL-15E بیونڈ ویژول رینج میزائل، مکمل تربیت، لاجسٹکس، اسپیئر پارٹس اور 15 سالہ مینٹیننس پیکج شامل ہے۔ آذربائیجان نے اکتوبر 2025 میں پہلے 12 طیاروں کی ڈلیوری وصول کر لی۔ اس سے پہلے نائجیریا کو 2016–2020 کے درمیان تین بلاک II طیارے دیے گئے جو بوکو حرام کے خلاف کامیابی سے استعمال ہوئے اور میانمار کو 2015 سے 2022 کے درمیان 16 طیارے فراہم کیے گئے۔ یعنی جے ایف-17 اب صرف پاکستانی فضائیہ کا اثاثہ نہیں بلکہ ایک کامیاب برآمدی پروڈکٹ ہے جو عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔

تیجس کے معاملے میں صورتحال بالکل برعکس ہے۔ ارجنٹینا، مصر، بوٹسوانا، فلپائن، ملائشیا اور حتیٰ کہ ویتنام سمیت کئی ممالک نے صرف دلچسپی ضرور ظاہر کی مگر 2025 کے آخر تک کوئی بڑا تصدیق شدہ برآمدی معاہدہ سامنے نہیں آیا۔ ملائشیا نے تو براہ راست جنوبی کوریا کا FA-50 منتخب کر لیا۔ اندرونی طور پر بھارتی فضائیہ نے 2021 میں 83 تیجس Mk-1A کا آرڈر دیا تھا اور 2024 میں مزید 97 طیاروں کا آرڈر دیا یعنی کل 180 طیاروں کا منصوبہ ہے۔ مگر ہندوستان ایئروناٹیکس لمیٹڈ (HAL) کی پیداواری صلاحیت اب بھی محدود ہے۔ 2025 میں صرف تین سے چار طیاروں کی ڈلیوری ہو سکی جبکہ وعدہ 16 کا تھا۔ انجن کی سپلائی میں امریکی پابندیوں کی وجہ سے تاخیر، کوالٹی کنٹرول کے سنگین مسائل، سافٹ ویئر انٹیگریشن کی ناکامی، پینل فٹنگ میں غلطیاں اور آئل لیکیج کے مسائل مسلسل رپورٹ ہو رہے ہیں۔

بھارتی فضائیہ کی تاریخ حادثات سے بھری پڑی ہے۔ 1963 سے لے کر اب تک ہزار سے زائد جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر تباہ ہو چکے ہیں اور 600 سے زائد پائلٹس ہلاک ہوئے۔ مگ-21 کے 468 حادثات میں 200 سے زائد پائلٹ ہلاک ہوئے۔ مگ-27 کو انجن اور ہائیڈرولک مسائل کی وجہ سے 2019 میں ریٹائر کیا گیا۔ مگ-29 کے بھی 25 سے زائد بڑے حادثات ہو چکے ہیں، جن میں سے تین صرف 2024 میں پیش آئے، 2 ستمبر کو راجستھان، 4 نومبر کو آگرہ اور ایک اور حادثہ۔ یہ اعداد و شمار بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے سرکاری جوابات پر مبنی ہیں۔

پاکستان ائیر فورس نے اس کے برعکس اپنے حادثات کی شرح کو انتہائی کم رکھا ہے۔ جے ایف-17 کا آپریشنل ریکارڈ شاندار ہے۔ مئی 2025 کے مختصر پاک بھارت جنگ میں جے ایف-17 اور جے-10 سی ای نے بھارتی ایئر ڈیفنس کو تباہ کیا اور PL-15E میزائلوں کی صلاحیت ثابت کی۔ سعودی عرب کی مشق “سپیئرز آف وکٹری 2025” میں جے ایف-17 نے F-15 اور رافیل کے ساتھ شانہ بشانہ پرواز کی۔ برطانیہ کے رائل انٹرنیشنل ایئر ٹاٹو 2025 میں جے ایف-17 نے ایئر ٹو ایئر ریفیولنگ کے ذریعے پاکستان سے برطانیہ تک کا سفر طے کیا اور “اسپرٹ آف دی میٹ ٹرافی” جیت لی۔

تیجس پروگرام 1983 میں شروع ہوا تھا یعنی 42 سال گزر چکے ہیں مگر اب تک مکمل فائنل آپریشنل کلیئرنس (FOC) بھی حاصل نہیں کی جا سکی۔ انجن GE F404 کی سپلائی میں امریکی پابندیوں کی وجہ سے تاخیر،ریڈار اور الیکٹرانک وارفیئر سوٹ کی تاخیر، HAL کی ناکافی پیداواری لائن اور سیاسی دباؤ نے پروگرام کو شدید متاثر کیا۔ دبئی ایئر شو میں طیارہ بھیجنے کا فیصلہ بھی سیاسی دباؤ میں کیا گیا جبکہ HAL نے تکنیکی تیاری پر تحفظات ظاہر کیے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج جے ایف-17 دنیا کے کم از کم چار ممالک کی فضائیہ کا حصہ ہے اور اس کی برآمدات سے پاکستان کو پانچ ارب ڈالر سے زائد کی آمدنی ہو چکی ہے۔ دوسری طرف تیجس ابھی اپنے ہی ملک میں مکمل اسکواڈرن اسٹرینتھ تک پہنچنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ موازنہ کسی قومی فخر یا تعصب کا نہیں بلکہ خالص حقائق کا تقابل ہے۔ ایک طرف محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے ایک سستا، قابلِ اعتماد اور برآمد کے قابل طیارہ تیار کر لیا دوسری طرف بھارت کے اربوں ڈالر اور چار دہائیوں کے باوجود تیجس ابھی تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔

ہوا بازی کی دنیا میں کارکردگی، اعتبار اور اعتماد محض نعروں سے نہیں بنتابلکہ اس کے لیے مضبوط انجینئرنگ، شفاف مینجمنٹ اور مستقل معیار درکار ہوتا ہے۔ آج آسمان پر جو طیارہ حقیقتاً اپنی صلاحیت، کامیاب مشنز، عالمی قبولیت اور مسلسل برآمدات کی بدولت فخر سے بلند پرواز کر رہا ہے، وہ جے ایف-17 تھنڈر ہے۔ مستقبل کس کا ہوگا، یہ وقت بتائے گا،لیکن آج کا آسمان واضح پیغام دے رہا ہے کہ تھنڈر اپنی گرج دنیا کو سنوا رہا ہے، اور اُدھر تیجس مودی کے ’میک اِن انڈیا‘ کے نعرے کے ساتھ ہی آسمان سے منہ کے بل گرتا دکھائی دیتا ہے۔

Shares: