تعلیم کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ملکی افرادی قوت کو ان کی صلاحیت و قابلیت کے مطابق روزگار کے امواقع پیدا کرنا بھی ریاست کے اہم فرائض میں شامل ہے۔ مگر یہاں نظام تعلیم اور تعلیمی معیار کی حالتِ زار جہاں تنزل کا شکار ہے۔ وہاں پڑھے لکھے بیروزگار کو زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہہں رکھی گئی۔ اول تو اداروں کی ضرورت کے مطابق گورنمنٹ بھرتیاں کی ہی نہیں جا رہیں۔ اور جن بھرتیوں کے لیئے اشتہار جاری کیا جاتا ہے۔ ان پر عقل سے بالاتر عجیب و غریب قسم کے قوائد و ضوابط لاگو کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ المیہ بلخصوص پنجاب میں زیادہ مسلط ہے۔

عام سرکاری بھرتیوں کے لئیے بھی تجربہ رکھا جا رہا ہے۔ ایک بیروزگار جس کے لئیے اپنی تعلیم کے مطابق نوکری حاصل کرنا ہی مشکل ہو چکا ہے۔ وہ نوکری کے حصول کے لئیے تجربی کہاں سے لائے۔؟ صورتحال یہ ہے ۔ کہ ماسوائے پنجاب کے باقی تمام صوبوں میں نوکری کے لئیے عمر کی حد 38 تا 40 سال ہے۔ مگر پنجاب میں عمر کی رعایت وہی پرانی لاگو ہے۔ جبکہ سرکاری اداروں میں خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لئیے بھرتیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پڑھے لکھے بیروزگار ان بھرتیوں کے لئیے اپلائی کے انتظار میں اوور ایج ہو کر سرکاری نوکری کی دوڑ سے ہی باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے کیا جائے۔ کہ سال 2019ء کے بعد سے تاحال ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں جنرل ایجوکیٹرز کی اسامیوں پہ بھرتی نہیں کی گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب کے سرکاری سکولوں میں مستقل اساتذہ جن میں سینئر اساتذہ اور ہیڈ ماسٹرز وغیرہ کی قریبا 65٪ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ یعنی قریبا 100،000 سیٹیں بھرتی کی منتظر ہیں۔ ہائی اور ہائر سیکنڈری سکولوں میں سبجیکٹ اسپیشلسٹ کی تقریباً 79٪ یعنی 4,404 سیٹیں خالی ہیں۔ جبکہ پنجاب کے پبلک کالجوں میں مختلف گریڈ کے اساتذہ کی 6،876 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 825 پبلک کالجوں میں صرف لیکچروں کی ہی تقریباً 1993 آسامیاں مطلوب ہیں۔
ایک طرف بیروزگاری حد سے تجاویز کر رہی ہے۔ اور دوسری صرف ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جو کسی بھی قوم کا بنیادی تربیتی شعبہ ہے۔ اسے "ڈھنگ ٹپاؤ” سیکم کا نشانہ بنا دیا گیا ہے۔ اعلی ڈگری کی حامل افرادی قوت دستیاب ہونے کے باوجود ان خالی آسامیوں میں سے کچھ پہ کبھی CTI’s اور کبھی STI’s کے نام پہ پڑھے لکھے بیروزگاروں کے ہاتھ میں دیہاڑی دار بننے کا کشکول تھما دیا گیا ہے۔

نظامِ ٹھیکیداری کے تحت دیئے جانے سے تعلیمی ادارے مزید بدحالی کا شکار ہیں۔ جہاں پڑھے لکھے بیروزگاروں کا صرف استحصال کیا جا رہا ہے۔ STI’s اور CTI’s کی تقرری کے لئیے میرٹ کے نام پہ اکیڈمک مارکس کا عقل سے بالاتر قانون نافذ ہے۔ انٹرویو کے محض پانچ نمبر رکھے گئے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ کہ امیدوار کے علم و قابلیت کو چیک نہیں کیا جاتا۔ صرف ڈگری کے نمبر دے کر میرٹ بنا دیا جاتا ہے۔ اب جبکہ PPSC نے بھی اکیڈمک مارکس کا اصول ختم کر دیا ہے۔ تو STI’s اور CTI’s کی تقرری میں اس غیر منصفانہ اصول کو کیوں مدنظر رکھا جا رہا ہے۔

پنجاب میں مستقل بھرتی تو ویسے ہی ختم کر دی گئی ہے۔ اور اب محدود مدت کے لئیے دیہاڑی دار بننے کے لئیے بھی رجسٹریشن فیس بھرنے کا نیا قانون جاری کر دیا گیا ہے۔ حالیہ سکول ٹیچر انٹرنیز کے لئیے جیسے ہی آن لائن اپلائی کی تاریخ قریب آئی۔ امیدواران کو ایک سکول میں ایک سیٹ پہ اپلائی کے لئیے ایک ہزار روپے رجسٹریشن فیس کی ادائیگی واجب قرار دے دی گئی۔ چونکہ STI’s کی بھرتی امیدوار کی اپنی یونین کونسل کی حد تک ہے۔ اس طرح اگر ایک امیدوار اپنی یونین کونسل میں موجود دو سکولوں میں دو آسامیوں کے لئیے درخواست دیتا ہے۔ تو اسے دو ہزار روپے اور اگر چار آسامیوں کے لئیے درخواست دے۔ تو چار ہزار روپے رجسٹریشن فیس کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔ اور پنجاب کے وزیر ء تعلیم رانا سکندر حیات نے اس کی وجہ یہ بتائی۔ کہ دیہاڑی در درخواست گزر پچھلی بار بھی زیادہ تھے ۔ اس لئیے یہ فیس رکھی گئی ہے۔

یہ کیسا ظلم ہے۔ کہ پی۔پی۔ایس۔سی اور ایف۔ پی۔ ایس۔سی میں مستقل نوکریوں کے لئیے بھی رجسٹریشن فیس چھ سو روپے ہے۔ جبکہ یہاں صرف ایک یونین کونسل کے چند سکولوں میں محدود مدت کے لئیے دیہاڑی دار کا محض امیدوار بننے کے لئیے بھی ایک ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے۔ کیا اربابِ اختیار کو اس چیز کا علم ہے۔ کہ اس جان لیوا منہگائی کے دور میں ایک بیروزگار عارضی تقرری کی صرف امید کے لئیے اتنے پیسے کہاں سے ادا کرے گا!! وزیر تعلیم کو چھ لاکھ درخواستیں تو معلوم ہیں۔ مگر ان درخواستوں کے پیچھے موجود ان بیروزگاروں کی ضرورت و بے بسی نہیں جان سکے۔ اگر بیروزگاری حد سے تجاویز کر رہی ہے۔ تو ریاست کو روزگار کے امواقع پیدا کرنے چاہئیں، نہ کہ بیروزگاروں کو ہی ختم کر دیا جائے۔
کئی سالوں کی محنت کے بعد ڈگریاں ہاتھوں میں لئیے نوکری کی تلاش میں بھٹکتے نوجوانوں کی حالتِ زار قابل رحم ہے۔ اس طرح کے غیر منطقی و غیر منصفانہ اصول و ضوابط بنا کر ان کی محنت اور امیدوں کو برباد نہ کیا جائے۔ بلکہ روزگار کی فراہمی کو آسان بنایا جائے۔
؂
نہ آئے موت خدایا تباہ حالی میں
یہ نام ہو گا غمِ روزگار سہہ نہ سکا

Shares: