ایتھوپیا میں 12 ہزار سال سے خاموش آتش فشاں پھٹ گیا، آتش فشاں سے نکلنے والی راکھ کے بادل یمن، عمان، بھارت اور پاکستان تک پہنچ گئے۔

محکمہ موسمیات نے پہلی بار کسی آتش فشاں کی راکھ سے متعلق الرٹ جاری کر دیا ہے،ترجمان کے مطابق آتش فشاں کی راکھ گوادر کے جنوب میں 60 ناٹیکل میل پر دیکھی گئی،راکھ 45ہزار فٹ کی بلندی پر تھی، پاکستان کی اندرون ملک پروازیں 34 سے 36 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتی ہیں،بین الاقوامی پروازوں کے جہاز 40 سے 45 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتے ہیں،راکھ بین الاقومی پروازوں کے جہاز کے انجن کو متاثر کرسکتی ہے۔

دوسری جانب بھارتی شہری ہوابازی کے ادارے ڈی جی سی اے اور ممبئی و دہلی کے موسمیاتی مشاہدہ دفاتر نے فضائی کمپنیوں کیلئے سخت الرٹ جاری کرتے ہوئے انہیں راکھ والے علاقوں کے اوپر پرواز نہ کرنے کی ہدایت دی ہے،آتش فشاں کے دھماکے کے فوراً بعد راکھ کا بادل تقریباً 30 سے 35 ہزار فیٹ کی اونچائی تک پہنچا، جو انہی فضائی پرتوں میں شمار ہوتی ہے جہاں سے زیادہ تر بین الاقوامی پروازیں گزرتی ہیں۔ ہواؤں کا رخ خلیجی ممالک کی طرف تھا، اسی وجہ سے یہ بادل سیدھا عمان کی جانب بڑھا اور پھر بحیرہ عرب کے اوپر سے گزرتا ہوا 24 نومبر کی شام بر صغیر تک آ پہنچا،موسمیاتی ماہرین کے مطابق اس وقت مہاراشٹر، گجرات، راجستھان اور وسطی ہندوستان کے اوپر کی ہوا میں راکھ کے باریک ذرات موجود ہیں جو پروازوں کے لیے مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

طیاروں کے ماہرین کہتے ہیں کہ آتش فشانی راکھ ہوابازی کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ عناصر میں شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راکھ انجن میں داخل ہو کر پگھلتی ہے اور ٹربائن کے اندر جم کر رکاوٹ پیدا کرتی ہے، جس سے انجن بند ہونے تک کا خدشہ رہتا ہے۔ صرف انجن ہی نہیں بلکہ جہاز کی سامنے والی شیشے کی پرت بھی بری طرح کھرچ جاتی ہے، جس سے پائلٹ کے لیے منظر دھندلا ہو جاتا ہے۔ آلات اور سینسر بھی خراب ہو سکتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ راکھ عام موسمی ریڈار پر صاف دکھائی نہیں دیتی، لہٰذا خطرہ اچانک اور بغیر پیشگی خبر کے سامنے آ سکتا ہے۔

Shares: