سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں چیئرمین سینیٹر شہادت اعوان کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔
اجلاس میں سینیٹر نسیمہ احسان، سیف اللہ ابڑو، عمر فاروق، پلوشہ محمد زئی خان، جام سیف اللہ خان، میر دوستین خان ڈومکی، دلاور خان، محمد اسلم ابڑو اور محمد عبدالقادر نے شرکت کی، جبکہ وفاقی وزیر داخلہ طلال چوہدری بھی موجود تھے۔اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے (NCCIA) نے 6 نومبر کے گزشتہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر بریفنگ دی اور بتایا کہ سینیٹر فلک ناز چترالی کے ساتھ ہونے والے فراڈ میں ملوث افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ انہوں نے زیرِ التوا اور نمٹائے گئے کیسز کے اعداد و شمار بھی پیش کیے، جن پر ارکان نے تشویش کا اظہار کیا۔
سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان نے ایف آئی اے کے رویے کی شکایات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک سینیٹر سے "مهدی شاہ” کے نام پر پیسے مانگے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایف آئی اے نے ایک یوٹیوبر کے بھائی کی بیوی سے 10 کروڑ روپے نہ مانگے ہوتے تو عوام سے ہونے والی لوٹ مار کا اندازہ نہ ہوتا۔سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے ایک ایف آئی اے افسر کی مبینہ کرپشن پر سوال اٹھایا، جس نے صرف ایک سال میں اربوں روپے مالیت کی جائیداد بنائی۔ اراکین نے ذمہ دار افراد کی نشاندہی کے لیے سب کمیٹی بنانے کی تجویز دی، تاہم چیئرمین نے کہا کہ اس مرحلے پر سب کمیٹی کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ایف آئی اے افسران کے خلاف انکوائری رپورٹ جلد مکمل کرکے کمیٹی کو پیش کی جائے۔
آئی جی سندھ اور آئی جی بلوچستان کے نمائندوں نے سینیٹر اسلم ابڑو کے بھائی اور بھتیجے کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری سے متعلق پیش رفت بتائی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پولیس ٹیمیں ملزمان کا پیچھا کرتے ہوئے کوئٹہ میں موجود ہیں، ملزمان کی جائیداد ضبط کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، شناختی کارڈ بلاک اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔چیئرمین نے ڈی آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ تحقیقات 20 دن میں مکمل کر کے رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے۔ ارکان نے آئی جی سندھ کی مسلسل غیر حاضری پر ناراضی کا اظہار کیا، جس پر چیئرمین نے ہدایت کی کہ وہ آئندہ اجلاس میں لازماً شریک ہوں۔
سینیٹر اسلم ابڑو، سیف اللہ ابڑو اور نسیمہ احسان نے بتایا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، مگر انہیں کوئی سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی۔ چیئرمین نے ہدایت کی کہ جب تک صوبائی تھریٹ اسیسمنٹ کمیٹیاں معاملہ نہیں لیتیں، آئی جی اسلام آباد، آئی جی سندھ اور آئی جی بلوچستان فوری طور پر ان سینیٹرز کو سیکیورٹی فراہم کریں۔
اجلاس میں صوابی سے 2,828 کارٹن سگریٹ چوری کے کیس پر بھی بریفنگ دی گئی۔ آئی جی خیبرپختونخوا اور ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ ایف آئی آر درج ہے اور معاملہ ایف آئی اے کے پاس زیرِ تفتیش ہے۔ کمیٹی نے تفتیش میں تاخیر پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے واضح ٹائم لائن مانگی اور ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں تمام متعلقہ افسران مکمل رپورٹ کے ساتھ موجود ہوں۔ چیئرمین نے ایف بی آر چیئرمین کی غیر حاضری پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔








