افغانستان کی عبوری حکومت نے ایک 3,200 سے زائد ایسے سخت گیر قیدیوں کی سزائیں معاف کر دی ہیں جو عام مجرم نہیں بلکہ دہشتگردی کے نہایت سنگین مقدمات میں سزا یافتہ تھے۔ ان میں خودکش حملہ آوروں کے نیٹ ورکس، بارودی دھماکوں، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور سرحد پار دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث عناصر شامل تھے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق ان قیدیوں کی سزا معافی کے فوراً بعد پاکستان کی جانب منظم اور تیز رفتار نقل و حرکت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ، رپورٹ کے مطابق 4,300 مزید قیدیوں کی سزا میں نمایاں کمی کی گئی ہے اور یہ گروہ بھی اگلے مرحلے میں افغانستان سے نکل کر کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت کے لیے "تیار بیچ” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ معافی پانے والوں میں نہ صرف تجربہ کار شدت پسند شامل ہیں بلکہ ایسے افراد بھی ہیں جو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں بارودی مواد کے ماہر، خودکش بمبار تیار کرنے والے، اغوا برائے تاوان نیٹ ورک کے سہولت کار اور سرحدی راستوں سے واقف گائیڈز شامل ہیں۔پاکستانی سکیورٹی حکام کو خدشہ ہے کہ یہ عناصر دوبارہ منظم ہو کر ملک میں دہشتگردی کی نئی لہر کا باعث بن سکتے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب افغانستان کے اندرونی حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور قوتِ نافذہ کمزور پڑ چکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان میں حکومتی کنٹرول کمزور ہونے کے باعث شدت پسند گروہ تیزی سے خالی جگہوں کو پُر کر رہے ہیں۔ کئی رہائی پانے والے قیدی داعش خراسان میں شمولیت کے قریب بتائے جا رہے ہیں، جو خطے میں بہت بڑے سکیورٹی چیلنج کی نشاندہی کرتا ہے۔سکیورٹی ماہرین کے مطابق اگر یہ گروہ داعش اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر سرگرم ہوتے ہیں تو سرحدی علاقوں میں عدم استحکام، حملوں میں اضافہ اور خطے بھر میں دہشتگردانہ نیٹ ورکس کی مضبوطی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے غیرمعمولی اقدام کرتے ہوئے سرحدی علاقوں میں نگرانی، بھاری نفری کی تعیناتی اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کو مزید فعال کر دیا ہے۔ افغانستان سے مشکوک آمد و رفت کی کڑی نگرانی جاری ہے جبکہ ممکنہ اہداف پر حفاظتی اقدامات بڑھا دیے گئے ہیں۔پاکستان کے اعلیٰ حکام اور علاقائی سکیورٹی ماہرین نے عالمی برادری، اقوامِ متحدہ اور علاقائی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے اس فیصلے کے سنگین اثرات کا فوری نوٹس لیں، کیونکہ یہ اقدام نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی امن و سلامتی کے لیے نیا بھاری خطرہ بن کر اُبھرا ہے۔

Shares: