لالمونیرہٹ ایئربیس، چکن نیک اور راجناتھ سنگھ
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اتوار کے روز ایک متنازع بیان دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگرچہ آج سندھ بھارت کا حصہ نہیں ہے، مگر یہ خطہ تہذیبی اور ثقافتی طور پر بھارت سے گہرا تعلق رکھتا ہے اور ’’ایک دن دوبارہ بھارت میں واپس آ سکتا ہے‘‘۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ کے کنارے آباد صوبہ سندھ 1947 کی تقسیم کے وقت پاکستان کا حصہ بنا، جس کے بعد بڑی تعداد میں سندھی ہندو بھارت ہجرت پر مجبور ہوئے۔ ان کے مطابق سندھ کا خطہ جغرافیائی طور پر گجرات اور راجستھان کے نزدیک ہونے کے ساتھ ساتھ ثقافتی طور پر بھی بھارت سے وابستہ ہے۔ راجناتھ سنگھ نے اپنے خطاب میں سابق بھارتی نائب وزیرِاعظم ایل کے ایڈوانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی نسل کے سندھی ہندو آج تک سندھ کی علیحدگی کو دل سے قبول نہیں کر سکے، کیونکہ اُن کے نزدیک دریائے سندھ اُن کی تہذیبی شناخت کا بنیادی حصہ ہے۔ اس بیان نے بھارت کے سیاسی حلقوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

یہ دعویٰ بظاہر ایک جذباتی نعرہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سندھ پاکستان کا ایک مضبوط اور ناقابلِ تقسیم صوبہ ہے، جس کی سیاست، معیشت اور شناخت بھارت کے کسی بھی خواب کو رد کرتی ہے۔ بھارت کے لیے اصل خطرہ سندھ یا مغربی سرحد نہیں بلکہ مشرقی محاذ ہے، جہاں تزویراتی تبدیلیاں تیزی سے بھارت کے لیے ایک نئے امتحان کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کے انتہائی شمال مغرب میں، بھارت کی سرحد سے صرف 12 سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع لالمونیرہٹ کا پرانا ہوائی اڈہ اس وقت جنوبی ایشیا کی سب سے خطرناک تزویراتی تبدیلی کا مرکز بن چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے وقت برطانوی رائل ایئر فورس کا یہ اڈّہ برسوں سے ویران پڑا تھا، مگر 2025 میں اس کی بحالی اور توسیع نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جو براہِ راست بھارت کے Siliguri Corridor یعنی Chicken Neck کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ وہی 22 کلومیٹر چوڑا تنگ کوریڈور ہے جو بھارت کی سات شمال مشرقی ریاستوں (آسام، اروناچل پردیش، ناگالینڈ، منی پور، میزورم، تریپورا اور میگھالیہ) کو باقی ہندوستان سے ملاتا ہے۔ اگر یہ کوریڈور کاٹا گیا تو شمال مشرق حقیقتاً الگ تھلگ ہو جائے گا۔

مارچ 2025 میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے لالمونیرہٹ کو مکمل فوجی ایئربیس میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا۔ اکتوبر 2025 میں آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے خود سائٹ کا دورہ کیا اور توسیعی منصوبے کا تفصیلی جائزہ لیا۔ نومبر 2025 تک یہاں جدید ایئر ڈیفنس ریڈار، ہینگرز اور رن وے کی توسیع کا کام تیزی سے جاری ہے۔ یہ منصوبہ محض بنگلہ دیش ایئر فورس کی جدیدبنانے کا حصہ نہیں ہے بلکہ چین اور پاکستان کے ساتھ مل کر بھارت کو مشرقی سمت سے گھیرنے کی ایک وسیع حکمت عملی کا اہم جز بھی دکھائی دیتا ہے۔ شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد صرف دس ماہ کے اندر بنگلہ دیش کی خارجہ و دفاعی پالیسی نے 180 ڈگری کا مکمل رخ بدل لیا۔ جہاں ایک طرف محمد یونس کی عبوری حکومت نے بیجنگ کے ساتھ 2.1 بلین ڈالر کے نئے معاہدے کیے، وہاں دوسری طرف پاکستان سے دفاعی تعلقات بحال ہوئے جو 1971 کے بعد پہلی بار اس سطح پر پہنچے ہیں۔

نومبر 2025 میں بنگلہ دیش آرمی کا وفد راولپنڈی پہنچا اور دونوں ممالک کے درمیان پہلی Army-to-Army Staff Talks منعقد ہوئیں۔ اسی مہینے Dubai Air Show میں پاکستان نے ایک "دوست ملک” کے ساتھ JF-17 تھنڈر بلاک 3 کے 16 سے 24 طیاروں کی فروخت کا ایم او یو کیا، جس کے بارے میں معتبر ذرائع کی تصدیق ہے کہ خریدار بنگلہ دیش ہی ہے۔ یہ طیارے AESA ریڈار اور PL-15 لانگ رینج میزائلوں سے لیس ہوں گے اور بنگلہ دیش کے پائلٹس تربیت کے لیے پاکستان آئیں گے۔ یہ 1971 کے بعد پہلا موقع ہوگا کہ بنگلہ دیشی فوجی اہلکار پاکستانی سرزمین پر تربیت حاصل کریں گے۔

چین اس پورے کھیل کا سب سے بڑا سرپرست ہے۔ وہ بنگلہ دیش کو پہلے ہی 72 فیصد دفاعی ساز و سامان فراہم کرتا ہے۔ لالمونیرہٹ کی بحالی میں چینی کمپنی Power China کی 1 بلین ڈالر سے زائد سرمایہ کاری شامل ہے۔ بیجنگ کی حکمت عملی واضح ہے کہ خلیج بنگال سے لے کر ہمالیہ تک ایک مسلسل دباؤ کی فضاء قائم کرنا تاکہ بھارت کو تین محاذوں پر بیک وقت الجھایا جائے ، مغرب میں پاکستان، شمال میں چین اور مشرق میں بنگلہ دیش۔ Siliguri Corridor کی کمزوری کوئی نئی بات نہیں ہےمگر اب پہلی بار اسے تینوں سمتوں سے بیک وقت خطرہ لاحق ہوا ہے۔ لالمونیرہٹ سے Chicken Neck کا فاصلہ فضائی راستے سے چند منٹوں کا ہے۔ اگر کبھی کشیدگی بڑھی تو یہ ایئربیس بھارت کے شمال مشرق پر براہِ راست حملوں، نگرانی یا لاجسٹک سپورٹ کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ بھارت نے جواب میں سلی گوری اور آس پاس کے علاقوں میں اضافی فوج، رافیل طیاروں کی تعیناتی اور نئی سڑکوں و ریل لائنوں کی تعمیر تیز کر دی ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ 22 کلومیٹر چوڑے اس کوریڈور کو مکمل طور پر محفوظ بنانا نہایت مشکل ہے۔

شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی پسند تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوئیں۔ منی پور میں جاری نسلی تنازع، ناگالینڈ اور آسام میں زیر زمین گروہوں کی سرگرمیاں اور معاشی پسماندگی نے ایک ایسی فضا پیدا کر رکھی ہے جہاں بیرونی قوتیں آسانی سے مداخلت کر سکتی ہیں۔ اگر Chicken Neck پر دباؤ بڑھا اور سپلائی لائن متاثر ہوئی تو ان ریاستوں میں بے چینی تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ براہ راست علیحدگی شاید ممکن نہ ہو، مگر ایک طویل الگ تھلگ حالت اندرونی استحکام کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ صورتحال تیزی سے ایک نئے تین ملکی (چین،پاکستان اور بنگلہ دیش)اسٹریٹجک اتحاد کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ لالمونیرہٹ کا پرانا رن وے آج محض کنکریٹ اور اسٹیل کا ڈھانچہ نہیں رہا بلکہ آنے والے برسوں کی جنوبی ایشیائی سیاست کا نیا رخ متعین کر رہا ہے۔ Chicken Neck اب محض نقشے پر ایک تنگ کویڈور نہیں رہا بلکہ بھارت کی سات مشرقی ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ کن امتحان بن چکا ہے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں راجناتھ سنگھ کا سندھ کے بارے میں بیان سامنے آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کی بے چینی اور گیدڑ بھبکیاں سندھ کے بارے میں نہیں بلکہ مشرقی محاذ پر بڑھتے ہوئے خطرات کے بارے میں ہیں۔ جب لالمونیرہٹ ایئربیس تیزی سے ایک فعال فوجی مرکز بن رہا ہے، جب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون نئی سطح پر پہنچ رہا ہے اور جب JF-17 تھنڈر بلاک 3 کی ڈیل بھارت کے مشرقی دروازے پر ایک نئی حقیقت رقم کر رہی ہے، تو ایسے میں سندھ کے بارے میں بیانات محض عوام کو بہلانے اور اصل خطرات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔ راجناتھ سنگھ کی بے چینی اور ان کی گیدڑ بھبکیاں دراصل اسی حقیقت کا اعتراف ہیں کہ بھارت کے لیے اصل امتحان سندھ نہیں بلکہ اس کا مشرقی محاذ ہے، جہاں چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ حکمت عملی نے اس کے لیے ایک ایسا جال بچھا دیا ہے جس سے نکلنا آسان نہیں۔لہٰذا راجناتھ کے بیانات کو اگر کسی تناظر میں دیکھا جائے تو وہ دراصل اسی خوف اور بے چینی کا اظہار ہیں جو لالمونیرہٹ ایئربیس، پاک-بنگلہ دفاعی تعاون اور JF-17 ڈیل نے نئی دہلی کے ایوانِ اقتدار میں پیدا کر رکھی ہے۔

Shares: