ننکانہ صاحب (باغی ٹی وی، نامہ نگار احسان اللہ ایاز)رانا ریزورٹ ہیڈ بلوکی میں بانس کی پیداوار بڑھانے کے لیے آگاہی سیمینار منعقد ہوا، جس کی صدارت چیئرپرسن بیگم نصرت شوکت اور ڈاکٹر عائشہ نے کی، جبکہ چیف گیسٹ پروفیسر سردار محمد الفرید ظفر نے خصوصی شرکت کی۔

مقررین نے کہا کہ بانس دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا پودا ہے، جس کی بعض اقسام ایک دن میں ایک میٹر تک بڑھ جاتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق بانس کی نئی فصل محض 3 سے 5 سال میں تیار ہو جاتی ہے، جو لکڑی کے درختوں کے مقابلے میں کئی گنا کم عرصہ ہے، اسی لیے اسے جنگلات کی کٹائی کا بہترین متبادل سمجھا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق بانس ماحول دوست پودا ہے جو فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ دوسرے درختوں کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ آکسیجن پیدا کرتا ہے۔ اس کی مضبوط جڑیں مٹی کو تھامتی ہیں، جس سے کٹاؤ، سیلابی ریلوں اور زمین کے بگاڑ میں نمایاں کمی آتی ہے۔ نمی برقرار رکھنے کی فطری خصوصیت اسے ماحولیات کے ماہرین کا پسندیدہ پودا بناتی ہے۔

ہاؤسنگ اور آرکیٹیکچر کے شعبوں میں بانس کا استعمال عالمی سطح پر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کی مضبوطی اسٹیل کے برابر جبکہ وزن لکڑی کے مقابلے میں کم ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں بانس سے گھروں، پلوں، فرنیچر اور انٹیرئیر ڈیزائن کی مختلف مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں۔

بانس سے بائیو ڈگریڈیبل پلاسٹک سمیت درجنوں ماحول دوست مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں، جن کی عالمی منڈی میں تیزی سے مانگ بڑھ رہی ہے۔ اس طلب میں اضافے کے باعث ترقی پذیر ممالک معاشی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔

پاکستان میں بانس کی کاشت چھوٹے کسانوں کے لیے آمدنی کا نیا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ماہرین زراعت کے مطابق ملک کا گرم و مرطوب موسم بانس کی کئی اقسام کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ حکومتی سطح پر تحقیق، تربیت اور بڑے پیمانے پر پلانٹیشن پروگرامز شروع کیے جائیں تو نہ صرف ماحول کو فائدہ ہوگا بلکہ دیہی معیشت بھی مستحکم ہو سکتی ہے۔

ماہرین نے کہا کہ بانس صرف ایک پودا نہیں، بلکہ مستقبل کی پائیدار معیشت کا ایک مضبوط ستون ہے۔ اگر اسے قومی سطح پر ترجیحی منصوبہ بندی کا حصہ بنایا جائے تو یہ ماحولیاتی تحفظ، اقتصادی ترقی اور روزگار کے بے شمار مواقع فراہم کر سکتا ہے۔

اگر آپ چاہیں تو میں اس خبر کا مختصر ایڈیشن، باکس آئٹم، فیچر اسٹائل ورژن یا سوشل میڈیا پوسٹ بھی تیار کر سکتا ہوں۔

Shares: