سلیب گردی اور مفت بجلی کی جنت
اعداد و شمار کے آئینے میں عام آدمی کا معاشی قتل
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
راولپنڈی کے ایک متوسط گھر میں اکتوبر 2025 کا بجلی کا بل آیا تو ماں باپ کے ہاتھ کانپ گئے۔ صرف 107 یونٹ استعمال ہوئے تھے، مگر بل تھا 6,788 روپے۔ حساب لگائیں تو فی یونٹ لاگت نکلتی ہے 63 روپے 35 پیسے۔ گھر میں صرف دو پنکھے، چار بلب، ایک فریج اور کبھی کبھار واٹر پمپ چلا تھا۔ لائٹس رات دس بجے تک بند، بچوں کو موبائل چارج کرنے کی سخت پابندی، پھر بھی بل چھ ہزار سے اوپر۔ وجہ؟ چھ ماہ پہلے جون میں شدید گرمی کے دو دن ایئرکنڈیشنر چل گیا تھا، 187 یونٹ ہو گئے تھے، بس وہی "جرم” کافی تھا کہ اب چاہے صارف مر جائے، اگلے چھ ماہ اسے 300 یونٹ والے مہنگے سلیب میں ہی رکھا جائے گا۔ یعنی جو شخص بجلی بچاتا ہے، اسے سزا ملتی ہے۔

دوسری طرف پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں حکومت نے خود تسلیم کیا کہ بجلی کے محکموں کے ملازمین کو ہر ماہ لاکھوں یونٹ مفت بجلی دی جا رہی ہے۔ سینیٹ کو پیش کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر کی 13 کمپنیاں (واپڈا، این ٹی ڈی سی، تمام ڈسکوز اور جنیکو) اپنے ملازمین کو ماہانہ 3 لاکھ 18 ہزار 445 یونٹ مفت بجلی فراہم کر رہی ہیں۔ صرف آئیسکو ایک کمپنی ماہانہ 2 لاکھ 56 ہزار 500 یونٹ مفت کھلا رہی ہے۔ گریڈ ایک سے چار تک کے ملازم کو 300، گریڈ پانچ سے سولہ تک کو 600، گریڈ انیس کو ایک ہزار، گریڈ بیس اور اکیس کو گیارہ سو، جبکہ گریڈ بائیس کے اعلیٰ افسر کو تیرہ سو یونٹ ماہانہ مفت ملتے ہیں۔ یعنی ایک گریڈ بائیس افسر اگر پورے 1300 یونٹ استعمال کر لے تب بھی اسے ایک پیسہ ادا نہیں کرنا پڑتا، جبکہ وہی 107 یونٹ عام شہری سے 6,800 روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔

اب ذرا موازنہ کیجیے۔ ایک طرف مزدور طبقہ ہے جس کی ماہانہ تنخواہ 25 سے 40 ہزار روپے ہے، وہ 100-150 یونٹ استعمال کرے تو اسے 6 سے 12 ہزار روپے بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف واپڈا کا گریڈ بائیس افسر جس کی تنخواہ ساڑھے چار سے پانچ لاکھ روپے ماہوار ہے، وہ 1200 سے 1800 یونٹ تک آرام سے جلا سکتا ہے اور قوم اس کی بجلی کا بل ادا کرتی ہے۔ تنخواہ بھی، پنشن بھی، میڈیکل بھی، پلاٹ بھی اور اوپر سے تیرہ سو یونٹ مفت بجلی بھی۔ سوال صرف یہ نہیں کہ یہ انصاف ہے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ آخر یہ کب تک چلے گا؟

وزیرِ توانائی سردار اویس احمد خان لغاری ہر دوسرے دن دعویٰ کرتے ہیں کہ "ہم نے بجلی سستی کر دی”۔ جناب! سستی کس کے لیے کی؟ واپڈا ملازمین کے لیے تو آپ نے جنت بنا دی، عام آدمی کے لیے جہنم۔ سلیب سسٹم کوئی تکنیکی ضرورت نہیں، یہ عام صارفین کو لوٹنے کا آلہ ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ، نیلم جہلم سرچارج، بجلی ڈیوٹی، جی ایس ٹی ودیگر ٹیکسز اور سرچارجز، یہ سب چھپے ہوئے ٹیکس ہیں جو بل کو دوگنا سے زیادہ کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ 2025 کے صرف گیارہ مہینوں میں نیٹ میٹرنگ کے تحت 1.87 ملین کلو واٹ نئے سولر سسٹم لگ چکے ہیں۔ سولر پینل کی درآمدات 4.8 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں۔ یعنی متوسط اور نچلا طبقہ واپڈا کو پیغام دے رہا ہے کہ "تمہاری لوٹ مار سے تنگ آ کر ہم گرڈ چھوڑ رہے ہیں”۔

جب تک واپڈا ملازمین کو مفت بجلی کی سہولت واپس نہیں لی جاتی، جب تک سلیب سسٹم ختم کر کے ایک ہی فی یونٹ ریٹ نہیں کیا جاتا، جب تک چھپے ہوئے ٹیکسز ختم نہیں ہوتے، تب تک ہر گھر میں یہی نعرہ بلند ہو گا کہ”بچوں کا پیٹ کاٹو، سولر لگاؤ، واپڈا کا تار کاٹ دو”۔

خوارج بندوق سے قتل کرتے ہیں، آپ بل کے کاغذ سے معاشی قتل کر رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خوارج کو دہشت گرد کہتے ہیں، آپ کو "محترم وزیر” کہا جاتا ہے۔

عوام اب خاموش نہیں رہے گی۔ 2026-27 تک اگر یہی پالیسیاں رہیں تو آدھا پاکستان گرڈ سے غائب ہو جائے گا۔ یہ کوئی دھمکی نہیں، یہ اعداد و شمار کا منطقی نتیجہ ہے۔

جنابِ وزیرِ توانائی! فیصلہ اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔
یا تو اس دوہرے نظام کی ناانصافی ختم کیجیے، ورنہ قوم اپنی بقا کے لیے خود اپنا راستہ تراش لے گی۔
عوام کا ضبط اپنی آخری حدوں کو چھو چکا ہے۔

اب بس …. کھیل ختم ہونے والا ہے۔

Shares: