سوشل میڈیا پر افغانستان اور بھارت سے منسلک بعض اکاؤنٹس کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے چترال کے علاقے سے افغانستان کے اندر ڈرون حملہ کرتے ہوئے تاجکستان کے صوبہ خطلون میں کام کرنے والی ایک چینی کمپنی کے ملازمین کو نشانہ بنایا۔ تاہم یہ دعویٰ سرکاری ریکارڈ اور تاجک حکام کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
تاجکستان کی حکومت کے مطابق یہ ڈرون حملہ افغانستان کی جانب سے کیا گیا تھا، جس میں خطلون خطے میں قائم ایل ایل سی "شوہن ایس ایم” کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔ حکام نے بتایا کہ ڈرون میں گرینیڈ اور ہلکے ہتھیار نصب تھے اور حملہ “استقلول” بارڈر گارڈ پوسٹ کے زیرِ کنٹرول علاقے پر کیا گیا۔ واقعے میں چینی کمپنی کے تین ملازمین جاں بحق ہوئے۔
تاجک وزارتِ خارجہ نے حملے کے بعد افغان طالبان انتظامیہ سے باضابطہ احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے، جس میں سرحد پار سے ہونے والے حملوں کو روکنے میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
دوسری جانب تاجک، روسی، چینی یا دیگر آزاد ذرائع میں سے کسی نے بھی اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا تذکرہ نہیں کیا۔ مبصرین کے مطابق پاکستان سے متعلق یہ دعویٰ زیادہ تر ان آن لائن نیٹ ورکس سے پھیل رہا ہے جو اس سے قبل بھی پاکستان مخالف بیانیے کی تشہیر میں سرگرم رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر مصدقہ معلومات پر مبنی ایسی افواہیں خطے میں غلط فہمیاں اور سفارتی تناؤ بڑھانے کا سبب بن سکتی ہیں، اس لیے سرکاری ذرائع اور مستند رپورٹس پر انحصار ضروری ہے۔پاکستان کی آئی ایس آئی پر چینی کارکنوں پر تاجکستان میں ڈرون حملہ کرنے کا الزام جھوٹا، غیر مصدقہ اور سرکاری تاجک بیانات کے خلاف ہے۔یہ بیانیہ افغان اور بھارتی پراپیگنڈا اکاؤنٹس کی ایک مربوط ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنا اور پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے۔یہ بیانیہ صرف را سے منسلک اور افغان ڈس انفارمیشن نیٹ ورکس سے ہی سامنے آیا ہے، جو پہلے بھی پاکستان مخالف پراپیگنڈا پھیلانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔








