ملک کے سیاسی ماحول میں ایک خطرناک رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے۔ سیاسی اختلافات، ذاتی مفادات اور سستی شہرت کی دوڑ نے کچھ عناصر جن میں یوٹیوبرز، غیر ذمہ دار سوشل میڈیا اور دوسرے ویلاگرز نے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ وہ قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف من گھڑت افواہیں پھیلانا اپنا معمول بنا چکے ہیں۔ یہ طرز عمل نہ صرف اخلاقی انحطاط کا مظہر ہے۔ بلکہ قومی سلامتی پر براراست حملہ بھی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے ادارے خصوصا عسکری قوت اس ملک کی دفاعی دیوار ہے۔ یہ وہ ادارے ہیں جنکے افسران اور جوان ہر لمحہ اپنی جان کو داو پر لگا کر ملک کی سرحدوں کے محافظ بنے کھڑے ہیں۔ ان میں سے کئی وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے ہیں ایسے میں ان کے خلاف جھوٹے الزامات اور بے بنیاد پروپیگنڈہ نہ صرف شہداء کے خون کی توہین ہے بلکہ معاشرے میں انتشار اور بداعتمادی کو جنم دیتا ہے۔
بلاشبہ اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر اس آزادی کی آڑ میں ریاستی اداروں پر حملے کرنا انکی ساکھ مجروح کرنا اور عوامی اعتماد کو متنززل کرنا کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی ذمہ دار ریاست میں ایسی منفی سرگرمیوں کے خلاف سخت قوانین موجود ہوتے ہیں اور ان قوانین کا نفاذ قومی تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کے پھیلاو کو روکنے کے لیے واضح اور سخت حکمت عملی وضع کی جائے ساتھ ہی عوام کو معلومات کی تصدیق اور ذمہ دارانہ رویے کی اہمیت سے آگاہ کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت مدنظر رکھنا چاہیے کہ ریاست ہمیشہ مقدم رہتی ہے سیاست بعد میں۔ اگر سیاسی فائدے یا ذاتی شہرت کے لیے اداروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا تو اسکے اثرات قوم کی اجتماعی وحدت، سلامتی اور استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔
وطن عزیز اس وقت جن چیلنجز سے دوچار ہے وہ ہم سے زیادہ ذمہ داری، اتحاد اور سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ افواہوں کی سیاست کے خلاف اجتماعی شعور اور ریاستی سطح پر مضبوط کاروائی ہی ملک کو اس خطرناک رجحان سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔








