نیپا چورنگی پر 3 سالہ بچے کے گٹر میں گرنے کے کئی گھنٹوں بعد بھی بچہ کا تاحال کچھ پتا نہ چل سکا۔
کراچی ایک بار پھر انتظامی غفلت اور بنیادی شہری سہولتوں کی کمی کے باعث ایک معصوم جان نگل گیا۔ اتوار کی شام گلشنِ اقبال نیپا چورنگی کے قریب ایک دردناک حادثہ اُس وقت پیش آیا جب ایک ماں اپنے چار سالہ بچے کے ساتھ شاپنگ کے لیے ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور آئی۔ خریداری کے بعد جیسے ہی وہ اسٹور سے باہر نکلی، چند ہی لمحوں میں اس کی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ اس کے سامنے تھا۔اس معصوم بچّے نے معمول کے مطابق قدم بڑھایا مگر سڑک کنارے موجود اُس گٹر کا ڈھکن غائب تھا۔ اندھیرا ہونے کے باعث بچہ گہرائی کا اندازہ نہ لگا سکا اور سیدھا کھلے گٹر میں جا گرا۔
کراچی شہرِ کراچی میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ کھلے مین ہولز نے قیمتی جانیں نگل لی ہوں۔ شہرِ قائد، جو ملک کا معاشی حب اور سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے، عرصے سے بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ سڑکوں پر ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں، غائب ڈھکن، اور ناقص شہری انتظامیہ انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار حکامِ بالا کو ان مسائل کی نشاندہی کی مگر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔ شہریوں کا سوال ہے کہ آخر یہ کیسی گورننس ہے جس میں ایک ماں کی آہ تو شاید آسمان تک پہنچ جائے مگر متعلقہ اداروں کے بند کمروں تک نہیں پہنچتی؟اس المناک واقعے نے پورے علاقے میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ شہری مطالبہ کر رہے ہیں کہ ذمہ دار اداروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، کھلے مین ہولز کا فوری خاتمہ کیا جائے، اور مستقبل میں ایسے حادثات روکنے کے لیے واضح حکمتِ عملی اپنائی جائے۔شہری سوشل میڈیا پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں.
گزشتہ رات پیش آنے والے واقعے کے بعد مشتعل افراد نے احتجاج کیا اور سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک معطل کردی ،علاقہ مکینوں کے احتجاج کے باعث اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہے جب کہ یونیورسٹی روڈ نیپا سے حسن اسکوائر آنے اور جانے والا ٹریک ٹریفک کیلئے بند کردیا گیا ہے۔ دوسر ی جانب مشتعل افراد نے میڈیا پر بھی حملہ کیا اور گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے جب کہ دفاتر جانے والے شہریوں کو زبردستی روکنے کی کوششیں کی، مشتعل ہجوم کے احتجاج کے باعث ریسکیو ٹیموں نے امدادی کام روک دیا ہے،ریسکیو حکام کے مطابق مین ہول میں پانی کا بہاؤ تیز ہونے کے باعث بچے کی تلاش کے کام میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بچے کے دادا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرا بیٹا اور بہو رات ساڑھے 10 بجے کے قریب شاپنگ کیلئے آئے تھے، بیٹا پارکنگ ایریا میں بائیک کھڑی کرنے گیا تھا، بچہ والدہ کے ساتھ تھا والد کے پیچھے بھاگا، اسی دوران گٹر کا ڈھکن کھلاتھا بچہ اس گٹر میں گرگیا،ہ بچہ میرے بیٹے کی اکلوتی اولاد ہے، بیٹا پرائیوٹ ملازم ہے، اتنی تکلیف میں ہوں کہ منہ سے الفاظ ادا نہیں ہورہے، متعلقہ اداروں کی جانب سے 3 ساڑھے 3 گھنٹے گزرجانے کے باوجود کسی کو مدد کیلئے نہیں بھیجا گیا لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مدد کی، ریسکیو کے کاموں سے مطمئن نہیں ہے،، گورنر سندھ، وزیراعلیٰ اور میئر کراچی سے درخواست ہے، اپنا بچہ سمجھتے ہوئے ہمارے بچے کی برآمدگی میں ہماری مدد کریں۔
ڈپٹی میئر کراچی کے مطابق اطلاع ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ چکی تھیں،لوگوں نے غلط بیانی کی ہے، مشینری اور انتظامیہ موجود تھی، کچھ شرپسند عناصر نےسیاسی مقاصد کیلئے احتجاج کیا اور گاڑیوں کے شیشے توڑ ڈالے۔
افسوسناک واقعے پر واٹر کارپوریشن نے اپنے مؤقف میں کہا کہ انسانی جان سے متعلق ہر ناخوشگوار واقعہ افسوس ناک ہوتا ہے لیکن افسوسناک واقعہ جس مقام پر پیش آیا وہاں واٹر کارپوریشن کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔ واٹر کارپوریشن کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ پر نہ سیوریج کی لائن موجود ہے اور نہ ہی واٹرکارپوریشن کا کوئی مین ہول، برساتی نالوں کی دیکھ بھال،مرمت اور صفائی کے امور واٹر کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں۔








