قومی سائبر سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیشِ نظر ماہرین اور متعلقہ اداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان اور پی ٹی اے فوری طور پر تمام مفت اور غیر رجسٹرڈ وی پی اینز پر مکمل پابندی عائد کرے۔
ماہرین کے مطابق یہ غیر محفوظ وی پی این ایپس نہ صرف شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کو خطرات سے دوچار کرتی ہیں بلکہ ملکی سطح پر سائبر حملوں، ہیکنگ اور بیرونی نگرانی کا سبب بھی بن رہی ہیں۔سائبر سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے مفت وی پی اینز خفیہ طور پر صارفین کا ڈیٹا جمع کر کے بیرونی کمپنیوں یا مشکوک نیٹ ورکس کو فروخت کرتے ہیں، جس سے صارفین کی معلومات، مالی ڈیٹا اور آن لائن سرگرمیاں سنگین سائبر جرائم کا شکار بن جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کو ہیکرز، فراڈ گروپس اور دشمن عناصر بھی اپنے نیٹ ورکس چھپانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی اے نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ صرف لائسنس یافتہ اور سیکیورٹی ویٹڈ وی پی اینز ہی پاکستان میں قابلِ استعمال ہونے چاہئیں، جبکہ غیر رجسٹرڈ وی پی این آئی پیز کو مرحلہ وار بلاک کرنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی، انٹرنیٹ سروس معطلی یا قانونی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔کاروباری شعبے کے لیے بھی انتباہ جاری کیا گیا ہے کہ غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کے استعمال سے نہ صرف آپریشنل رسک بڑھتا ہے بلکہ قانونی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں، جو کمپنی کی ساکھ اور ڈیٹا سیکیورٹی کے لیے نقصان دہ ہیں۔
عالمی تناظر میں بھارت، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بنگلہ دیش پہلے ہی غیر منظور شدہ وی پی اینز پر سخت پابندیاں نافذ کر چکے ہیں، اور اس ماڈل کو قومی سلامتی کے لیے مؤثر قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان بھی اسی سمت بڑھتے ہوئے ایک مضبوط ڈیجیٹل سیکیورٹی فریم ورک تشکیل دے سکتا ہے۔حکومتی ادارے شہریوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ صرف منظور شدہ اور محفوظ وی پی این خدمات استعمال کریں تاکہ ان کی پرائیویسی، مالیاتی معلومات اور آن لائن شناخت محفوظ رہ سکے
سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ اور یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن نجکاری پروگرام سے خارج








