سائرہ آج یونیورسٹی جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے وہ اپنے سادے کپڑوں کو دیکھ کر دبی آواز میں بولی،
"کاش… کبھی میں بھی اچھی لگوں۔”
اس کی آواز میں حسرت تھی، مگر وہ جانتی تھی کہ گھر کے حالات مہنگی خواہشوں کی اجازت نہیں دیتے۔
دروازہ کھلا تو امی اندر آئیں۔ ہاتھ میں ایک بیگ تھا۔
"یہ لو بیٹا… آج تم یہ پہن کر جاؤ۔”
سائرہ نے حیرت سے پوچھا، "امی! یہ… یہ تو نیا ہے؟ اور کافی مہنگا بھی لگ رہا ہے۔ کہاں سے لیا؟”
امی نے مصنوعی مسکراہٹ کی اوٹ میں اپنی تھکن چھپاتے ہوئے کہا، "بس لے لیا۔ کبھی کبھی بیٹیوں کے لیے دل چاہتا ہے کچھ کر دوں… تم پہنو گی تو اچھی لگو گی۔”
سائرہ نے کپڑے ہاتھ میں لیے تو محسوس ہوا جیسے کپڑا نہیں، امی کی کئی قربانیاں اس کی ڈنت میں میں لگی ہیں۔
“امی۔۔۔۔۔ ضرورت نہیں تھی۔”
امی نے نرمی سے جواب دیا، “ضرورت کبھی کبھی دل کی بھی ہوتی ہے، صرف جسم کی نہیں۔ جاؤ بیٹا، پہنو۔”
سائرہ نے وہ کپڑے پہنے تو پہلی بار اسے لگا کہ شاید وہ واقعی اچھی لگ سکتی ہے۔ مگر دل میں عجیب سا بوجھ تھا۔ جیسے اس لباس کی قیمت اس کی اپنی شخصیت سے کہیں زیادہ ہو۔
یونیورسٹی پہنچی تو ماحول یکسر بدل گیا۔
علی نے اسے دیکھتے ہی کہا،
سائرہ! آج تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو!”
نمرہ نے حیرت سے پوچھا، “یہ ڈریس کہاں سے لیا؟ بہت اسٹائلش ہے!”
ایک اور لڑکی بولی، “یار، سائرہ! تمہاری کلاس” تو آج ہی بنی ہے!”
سائرہ ان کی باتیں سنتی رہی، مگر تعریف کا ہر ہر تیر کی طرح دل میں چبھ رہا تھی۔
اس نے دھیرے سے پوچھا، “میں اچھی لگ رہی ہوں… یا یہ کپڑے اچھے ہیں؟”
نمرہ ہنس کر بولی، "ارے کپڑے تو انسان کو نکھار دیتے ہیں۔ آج تو تم پوری برانڈ لگ رہی ہو!”
یہ لفظ” برانڈ” اس کے دل پہ بجلی بن کر گرا۔
پورے دن وہ ہنستی رہی، باتیں کرتی رہی، مگر اندر اتھل پتھل جاری رہی۔
اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے لوگ اسے نہیں، اس کے لباس کو دیکھ رہے ہوں۔
اس کی ذات کہیں پیچھے،
اور اس کا لباس اس کا تعارف بن گیا ۔۔۔۔۔لباس کی اہنی دیوار کے پیچھے سے وہ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر جھانک رہی تھی کہ لوگوں کو بتا سکے "میں یہاں ہوں” لیکن وہ گونگی چیخیں کسی کو سنائی نہ دیں۔
شام کو واپس گھر پہنچ کر وہ سیدھی اپنے کمرے میں گئی۔ کپڑے اتار کر تہہ کرتے ہوئے اس نے امی کو آواز دی، "امی، لوگ۔۔۔۔۔( الفاظ گلے میں اٹک گئے )
آج سب بہت اچھے تھے۔ سب تعریفیں کر رہے تھے۔”
امی خوش ہو کر بولیں، "میں نے کہا تھا نا؟
اچھا لباس انسان کو اعتماد دیتا ہے۔”
( کبھی کبھی اندر کے عقلمند انسان کو مار کر ،بظاہر ایک بے وقوف انسان کو بھی جینے کا حق دینا چاہیے )۔سائرہ کی ماں خود کلامی کے انداز میں گویا ہوئی۔
سائرہ نے کپڑے کو ہاتھ میں پکڑا، پھر امی سے نظریں چرا کر آہستہ سے پوچھا، "امی… اگر میں یہی تعریفیں اپنے پرانے کپڑوں میں سن لیتی… تو شاید مجھے یقین آ جاتا کہ یہ میری اپنی قیمت ہے۔ لیکن آج… یہ سب سن کر میں عجیب الجھن میں ہوں۔”
امی کچھ لمحے خاموش رہیں۔ پھر بولیں، “لوگوں کی نظر بدلتے دیر نہیں لگتی۔”
سائرہ نے تلخی سے کہا، “ہاں امی… پر مسئلہ یہ ہے کہ آج ان کی نظر میں میں نہیں تھی… یہ برانڈ تھا۔ یہ کپڑے تھے۔ یہ قیمت تھی۔”
امی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، مگر سائرہ کی آنکھوں میں وہ تیز چمک تھی جو کسی گہری سمجھ بوجھ کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
رات گئے وہ تنہا بیٹھی رہی۔ کھڑکی سے باہر اندھیری گلی دیکھتی، اور اندر روشنی میں رکھے ہوئے ان کپڑوں کو۔
اس نے دھیرے سے، جیسے خود کو سمجھاتے ہوئے کہا:
“اگر میری عزت، میرا وقار، میری اہمیت… کسی کپڑے کی قیمت سے وابستہ ہو سکتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اصل میں میری کوئی قیمت تھی ہی نہیں۔”
اس کی آواز ٹوٹ رہی تھی، مگر الفاظ بہت صاف تھے:
“لوگوں کی نظر میں میں وہی تھی… بس آج دس ہزار کے کپڑوں نے مجھے بدل دیا۔”
وہ نیچے دیکھ کر کپڑوں پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔۔
کپڑے نرم تھے، مگر حقیقت بہت کڑی۔
اور اس وقت سارا نے اپنے ہاتھوں سے جلدی جلدی اپنے پورے جسم کو ٹٹول ڈالا، ایستادہ پنڈلیاں،نرم سینہ، چمکتے ،لہکتے بازو ،
مہندی لگے ہاتھ ، روشن ماتھا ،دہکتے گال ،شکایت أمادہ گلابی ہونٹ ،مغرور ستواں ناک ،شفاف گردن ایسی کہ اندر پانی جاتا بھی دکھائی دے ،اور کچھ نہیں تو قیمتی دل ،آرزوؤں سے بھرا ہوا دل ،محبتیں بانٹنے اور محبت پا لینے کے لیے بے تاب دل ۔۔۔۔۔۔وہ جسم کے روئیں روئیں کی قیمت بنا رہی تھی کہ شاید اس کے لباس سے زیادہ قیمت کے نکل آئیں
کیونکہ اس کے اندر کوئی چیخ رہا تھا ۔۔۔۔۔ُ
سائرہ۔ ۔۔۔۔۔۔۔! ! ! ! !
“تمہاری قیمت دس ہزار بھی نہیں تھی لوگوں کی نظر میں۔”۔ ۔ ۔ ۔ ۔








