بالی وڈ فلم دھورندھر نے پاکستان میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جہاں فلم میں پاکستانی سیاسی شخصیات اور جماعتوں کے براہِ راست حوالوں نے شدید ردِعمل پیدا کر دیا ہے۔ فلم کے ٹریلر اور چند مناظر میں بے نظیر بھٹو کی تصاویر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی بینرز کا استعمال پاکستانی ناقدین اسے ’’جانبدارانہ سیاسی پیشکش‘‘ قرار دے رہے ہیں۔

فلم میں دکھائے گئے بعض سیاسی پوسٹرز، تصاویر اور حوالوں کو پاکستانی تجزیہ کاروں نے اس کوشش کے طور پر دیکھا ہے کہ پاکستان کے داخلی سیاسی ماحول ، بالخصوص ماضی کی قیادت کو ایک ایسے بیانیے کے ساتھ جوڑا جائے جو فلم کے کرائم اور خطے کی کشیدگی سے متعلق پلاٹ کا حصہ ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ منظرنامہ نہ صرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کو مسخ کرتا ہے بلکہ حقیقی سیاسی جماعتوں کو ایک فلمی تناظر کے منفی خاکے میں پیش کرتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ بے نظیر بھٹو کی تصویر کا استعمال نامناسب اور سیاسی طور پر اشتعال انگیز ہے۔ ان حلقوں کے مطابق فلم نے ایک ایسی قومی شخصیت کو جو جمہوری جدوجہد کی علامت سمجھی جاتی ہیں، ایک ایسے اسکرپٹ میں شامل کیا ہے جس کا مقصد محض پس منظر میں سیاسی سنسنی خیزی پیدا کرنا ہے۔

اسی دوران سابق کراچی پولیس افسر چودھری اسلم کے کردار سے مشابہہ رول کو بھی پاکستان میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کی بیوہ کی جانب سے فلم میں کردار کی غلط اور توہین آمیزعکاسی پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے، جس کے بعد فلم پر قانونی کارروائی کا امکان بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اس احتجاج کے بعد یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ فلم کو حساس پاکستانی اداروں، شخصیات اور سیاسی علامات کو تجارتی کامیابی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بالی وڈ میں پاکستان سے متعلق منفی بیانیہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن دھورندھر میں پاکستانی سیاستدانوں کے نام، تصاویر اور جماعتی علامتوں کا براہِ راست استعمال دونوں ملکوں کے درمیان تلخی کو مزید بڑھاسکتا ہے۔ ان کے مطابق فلمی پلاٹ کے ذریعے پاکستان کے داخلی معاملات کو غیر ضروری طور پر شدت اور تنازع سے جوڑتی ہے۔

پاکستانی فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ تکنیکی معیار بلند ہونے کے باوجود فلم کا سیاسی مواد غیر ضروری، جانبدارانہ اور سفارتی حساسیت سے عاری محسوس ہوتا ہے۔ عوامی حلقوں میں بھی یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ بھارتی فلمیں ایک مرتبہ پھر پاکستان کے سیاسی ماحول اور شخصیات کو محض سینما کی سنسنی کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

پاکستانی وزارتِ اطلاعات کی جانب سے اس حوالے سے کوئی باضابطہ ردِعمل سامنے نہیں آیا، تاہم حکومتی اور اپوزیشن حلقوں میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ فلم میں دکھائے گئے سیاسی حوالوں سے دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود بیانیاتی خلیج مزید گہری ہو سکتی ہے۔

Shares: