قرآن کریم میں اللہ تعالٰی بار بار انسان کو یاد دلاتا ہے کہ دولت، شہرت اختیار اور طاقت یہ سب آزمائشیں ہیں۔ کوئی شخص اگر بلند منصب پر فائز ہے اگر اسکے پاس دولت کی ریل پیل ہے، اگر اسکے نام کے چرچے ہیں تو یہ اُسکی کامیابی کا ثبوت نہیں یہ اُسکے امتحان کا آغاز ہے، سورہ توبہ میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ہم جسکو دنیا کی سہولتیں دیتے ہیں وہ اس لیے نہیں کہ وہ ہمارا خاص بن گیا ہے بلکہ اس لیے تاکہ اسکی آزمائش ہو سکے، دنیاوی نعمتیں اصل میں ذمہ داریاں ہیں، انعام نہیں۔ لیکن افسوس کہ آج کا انسان خاص طور پر وہ جو اختیار کی کرسی پر بیٹھ جائے وہ اپنی حقیقت بھول بیٹھتا ہے۔ وطن عزیز کا معاشرہ اسکی ایک زندہ مثال ہے، عام آدمی سے لیکر صاحب اقتدار تک، دفاتر ہوں، یا تھانے ہوں، یا انصاف دینے والے ہوں، یا وزارتیں ہوں، ہر جگہ ایک عجیب قسم کا تکبر، رعونت اور طاقت کا خمار بکھرا پڑا ہے۔ کسی کو کرسی ملی تو لہجہ بدل گیا، کسی کے پاس دولت آئی تو انسانیت چھن گئی، کسی کو سیٹ ملی تو اس نے اپنے ہی قدم زمیں پر ہوتے محسوس نہ کیے۔ حالانکہ رب نے صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ انسان کو غرور کے لیے نہیں بلکہ عاجزی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، انسان کی اصل عزت اسکے عہدے میں نہیں بلکہ اسکے اخلاق میں ہے، اصل بلندی اسکی دولت میں نہیں اسکی عاجزی میں ہے۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے منصب کو عبادت کی جگہ رکھ دیا ہے اور عبادت کو رسم بنا دیا ہے۔ یہ وہی تکبر ہے جسے اللہ تعالٰی نے ناپسند فرمایا، یہ وہی غرور ہے جس نے شیطان کو شیطان بنایا معاشرے میں سرمایہ داروں، مذہبی رہنماؤں، بیوروکریسی کے افسران حتی کہ عام لوگوں تک میں یہ ایک بیماری پیدا ہو چکی ہے۔ ہر شخص اپنی جگہ خود کو سچا، سب کو کم تر اور اپنے دائرے میں اپنے اپکو ایک علیحدہ مخلوق سمجھنے لگا ہے۔ لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ سخت ترین حساب انہی لوگوں کا ہو گا جنہیں دنیا میں سب سے زیادہ اختیار دیا گیا تھا ہمارے معاشرے کی بدحالی کی اصل وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔ وہ معاشرے نہیں ٹوٹتے جن کے پاس کم وسائل ہوں وہ ٹوٹتے ہیں جہاں تکبر سستا اور انصاف مہنگا ہو جائے، وہ قومیں نہیں مرتیں جن پر غربت ہو، وہ مٹتی ہیں جہاں ضمیر مر جائے۔ ہمیں بلند عمارتیں نہیں بلند اخلاق درکار ہے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہر اختیار ایک دن چھن جاتا ہے، ہر طاقت فنا ہو جاتی ہے، ہر اقتدار ختم ہو جاتا ہے لیکن جو انسان عاجزی اپناتا ہے وہ تاریخ دِلوں اور اللہ تعالٰی دونوں میں باقی رہتا ہے۔ آئیں خود سے یہ سوال کریں کیا ہم آزمائش میں کامیاب ہو رہے ہیں؟ یا ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہو چکے ہیں جو رب کی نعمتوں کو تکبر کی چابی بنا لیتے ہیں؟ اللہ تعالی ہمیں سچائی انصاف اور عاجزی کیساتھ جینے کی توفیق دے کیونکہ انسان کا اصل قد اسکی کرسی سے نہیں اسکی جھکی ہوئی گردن سے ظاہر ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت، دولت اور شہرت کبھی بھی انسان کو عظیم نہیں بناتیں یہ صرف اسکی آزمائش کو بڑا کرتی ہیں۔ کاش ہمارا معاشرہ اس سادہ حقیقت کو سمجھ سکے اصل مسلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں اصل خرابی یہ ہے کہ اختیار ملتے ہی انسان چھوٹا ہو جاتا ہے اور انا بہت بڑی۔

عاجزی ،کامیابی کی سیڑھی،تجزیہ:شہزاد قریشی
باغی بلاگز3 گھنٹے قبل






