آسٹریلیا میں فائرنگ میں ہلاک ہونے والے 15 افراد میں سے چند کی آخری رسومات بدھ کے روز ادا کر دی گئی۔ اسی روز پولیس نے مبینہ حملہ آوروں میں سے ایک کے خلاف قتل اور دہشت گردی کے سنگین الزامات بھی عائد کیے۔
سڈنی کے علاقے بانڈی میں واقع چاباد آف بانڈی کے باہر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے، جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے مقتول ربی ایلی شلینجر کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ربی شلینجر اتوار کے روز ہونے والے اس خونریز حملے میں مارے گئے، جو یہودی خاندانوں کو ہنوکہ کی پہلی رات مناتے ہوئے نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
ربی شلینجر کے اہلِ خانہ اور عزیز و اقارب آبدیدہ تھے جب ان کا تابوت، جس پر سنہری اسٹار آف ڈیوڈ بنا ہوا سیاہ مخملی غلاف چڑھا تھا، عبادت گاہ میں لایا گیا۔41 سالہ ربی ایلی شلینجر بانڈی بیچ پر منعقد ہونے والے “ہنوکہ بائے دی سی” پروگرام کے منتظم تھے اور چاباد آف بانڈی میں اسسٹنٹ ربی کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ پانچ بچوں کے والد تھے، جن میں ان کا سب سے چھوٹا بیٹا صرف دو ماہ کا ہے۔
انہیں مقامی طور پر “بانڈی ربی” کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ یہودی برادری میں ایک نہایت محبوب اور مخلص مذہبی رہنما سمجھے جاتے تھے۔ عالمی یہودی تنظیم چاباد کے مطابق، ربی شلینجر نے بانڈی کی یہودی برادری میں مذہبی زندگی کو فروغ دینے کے لیے انتھک محنت کی۔تدفینی تقریب کے دوران ان کے سسر، ربی یہورام اُلمان، اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا “وہ بہترین شوہر، بہترین باپ اور بہترین بیٹا تھا۔ آج میں جو کچھ بھی کہوں گا، وہ اس کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ تم میرے بیٹے، میرے دوست اور میرے رازدار تھے۔ تمہارے بغیر ایک دن کا تصور بھی ممکن نہیں۔”
آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے تدفین سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا “ربی شلینجر کو نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پوری کمیونٹی میں بے حد محبت حاصل تھی۔ اس دکھ کی گھڑی میں تمام آسٹریلوی عوام کے دل اور دعائیں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔”
بدھ کے روز دیگر متاثرین ریوین موریسن (62)، پیٹر میگھر اور ربی یعقوب لیویٹن (39) کی تدفین بھی مقرر تھی۔
دوسری جانب ربی شلینجر کی تدفین کے چند گھنٹوں بعد پولیس نے بتایا کہ 24 سالہ نوید اکرم پر مجموعی طور پر 59 الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں 15 افراد کے قتل،40 افراد کو قتل کرنے کی کوشش،دہشت گردی کی کارروائی انجام دینے جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔نوید اکرم کے والد ساجد اکرم (50) کو پولیس نے موقع پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، جبکہ نوید اکرم زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ نیو ساؤتھ ویلز کے پولیس کمشنر مال لینن کے مطابق، نوید اکرم کو منگل کے روز کوما سے ہوش آیا اور جیسے ہی وہ بیان دینے کے قابل ہوگا، اس کے خلاف قانونی کارروائی مکمل کی جائے گی۔
حکام کے مطابق، حملہ آور داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے نظریے سے متاثر تھے، اور انسدادِ دہشت گردی کے حکام کا ماننا ہے کہ دونوں نے گزشتہ ماہ جنوبی فلپائن میں عسکری طرز کی تربیت حاصل کی، جو شدت پسند سرگرمیوں کے لیے بدنام علاقہ ہے۔ساجد اکرم ایک لائسنس یافتہ اسلحہ بردار تھا، جس کے بعد آسٹریلیا کے سخت اسلحہ قوانین پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب آسٹریلیا میں یہودی مخالف حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جن میں عبادت گاہوں اور یہودی املاک کو نذرِ آتش کرنا اور توڑ پھوڑ شامل ہے۔ یہودی رہنما برسوں سے حکومت سے اس مسئلے پر سخت اقدامات کا مطالبہ کر رہے تھے۔وزیرِاعظم البانیز نے کہا کہ وہ معاشرے سے یہود دشمنی کے مکمل خاتمے کے لیے قانون سازی پر نظرِ ثانی کے لیے تیار ہیں اور نفرت انگیز تقاریر کے قوانین کو مزید سخت کیا جا سکتا ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز ہیلتھ کے مطابق، حملے میں زخمی ہونے والے 21 افراد تاحال اسپتال میں زیرِ علاج ہیں، جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔زخمیوں میں 22 سالہ نو آموز پولیس اہلکار جیک ہیبرٹ بھی شامل ہیں، جن کے سر اور کندھے میں گولیاں لگیں اور ایک آنکھ کی بینائی ضائع ہو گئی۔ ان کے خاندان کے مطابق، جیک نے شدید زخمی ہونے کے باوجود دوسروں کی حفاظت اور مدد جاری رکھی۔اس کے علاوہ، متعدد عام شہریوں کی بہادری کو بھی سراہا جا رہا ہے۔ ڈیش کیم ویڈیو میں نظر آنے والا ساٹھ سالہ جوڑا بورس اور صوفیہ گورمین، جو ایک مشتبہ حملہ آور سے الجھ پڑے اور اس سے بندوق چھیننے کی کوشش کی، اس دوران جان کی بازی ہار گئے۔ وزیرِاعظم البانیز نے انہیں “آسٹریلوی ہیرو” قرار دیا۔








