قومیں نعروں سے نہیں، کردار کی پختگی سے بنتی ہیں، حکمرانی کا اصل حسن عوام کے دکھوں کا مداوا ہے، نہ کہ اقتدار کا شور

کیا آنے والے دنوں میں سیاستدان الزام کی سیاست ترک کر کے خدمت کی راہ اپنائیں گے؟ اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ بڑے بے رحم انداز میں فیصلہ سنایا کرتی ہے

سیاست اگر خدمت سے خالی ہو جائے تو محض ایک تماشہ بن کر رہ جاتی ہے، اور یہی تماشہ ہم نے ملک کے اکثر حصوں میں دیکھا

سالِ دو ہزار پچیس جب تاریخ کے اوراق میں رقم ہونے کو ہے تو قومی سیاست کا منظر ایک ایسے شوریدہ دریا کی مانند دکھائی دیتا ہے جس میں آوازیں تو بہت ہیں، مگر سمت کا تعین کم۔ ملک کے چاروں گوشوں میں سیاست دانوں کی زبانیں تیز، لہجے، بلند اور دعوے بے شمار رہے۔ الزام در الزام کا ایسا سلسلہ چلا کہ اصل مسائل گردِ راہ میں دب کر رہ گئے اور عام آدمی حسبِ معمول تماشائی بن کر رہ گیا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب قوموں کی تقدیر کا فیصلہ تقریروں سے نہیں بلکہ تدبیر سے ہوا کرتا ہے، مگر افسوس کہ ہمارے ہاں گفتار کو کردار پر فوقیت دی جاتی رہی۔ اس عمومی ابتری میں اگر کہیں نظم و نسق کی کوئی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہ پنجاب کے افق پر نمایاں نظر آتی ہے، جہاں وزیراعلیٰ نے سیاست کے شور سے ہٹ کر حکمرانی کے تقاضوں کو سمجھنے اور نبھانے کی سعی کی۔ پنجاب کے شہروں کی گنجان آبادی ہو یا دیہات کی دور افتادہ بستیاں، صحت، تعلیم اور بنیادی سہولتوں کے باب میں جو عملی اقدامات سامنے آئے، وہ محض اشتہار کی زینت نہیں بلکہ عوامی زندگی سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں اصلاح، عوامی خدمات کی فراہمی اور انتظامیہ کو جواب دہ بنانے کی کوششیں اس بات کی شاہد ہیں کہ اقتدار اگر چاہے تو خدمت کا روپ دھار سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کوئی بھی حکومت کامل نہیں ہوتی، مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ 2025 میں پنجاب کی سطح پر کارکردگی کا تاثر دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ واضح رہا۔ جب باقی سیاسی افق پر گرد و غبار چھایا رہا، تب یہاں کم از کم یہ احساس زندہ رکھا گیا کہ حکومت کا پہلا فرض عوام کی خبرگیری ہے، نہ کہ محض مخالفین کی خبر لینا۔ چراغ حسن حسرت کے بقول، سیاست اگر خدمت سے خالی ہو جائے تو محض ایک تماشہ بن کر رہ جاتی ہے، اور یہی تماشہ ہم نے ملک کے اکثر حصوں میں دیکھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی فکر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قومیں نعروں سے نہیں، کردار کی پختگی سے بنتی ہیں، اور حکمرانی کا اصل حسن عوام کے دکھوں کا مداوا ہے، نہ کہ اقتدار کا شور۔ سالِ رفتہ ہم سے یہ سوال چھوڑ کر جا رہا ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں سیاست دان الزام کی سیاست ترک کر کے خدمت کی راہ اپنائیں گے؟ اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ بڑے بے رحم انداز میں فیصلہ سنایا کرتی ہے، اور قومیں پھر افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لایا کرتیں۔ روس کے صدر پوٹن نے یورپی رہنماؤں کے بارے میں جو الفاظ ادا کیے ان سے ناصرف دکھ ہوا بلکہ عالمی سفارتی اقدار پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا۔

قیادت کا اصل حسن طاقت کے اظہار میں نہیں بلکہ ضبط، بردباری اور اخلاقی وقار میں ہوتا ہے۔ روس جیسے بڑے ملک کے صدر سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اختلاف کے باوجود اخلاقیات کا دامن تھامے رکھیں گے۔ بین الاقوامی تعلقات میں زبان محض الفاظ نہیں ہوتی بلکہ رویوں اور نیتوں کی عکاس ہوتی ہے۔ اختلاف اپنی جگہ، مفادات کی جنگ بھی اپنی جگہ، مگر تہذیب اور اخلاق وہ اقدار ہیں جو طاقتور کو مزید معتبر بناتی ہیں۔ اگر عالمی رہنما ان حدود کا خیال نہ رکھیں تو پھر امن، مکالمے اور سفارتکاری کی باتیں محض کھوکھلے نعرے بن کر رہ جاتی ہیں۔

Shares: