سیاسی کارکن عثمان ہادی کے ٹارگٹ کلنگ کے بعد ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں ہونے والے شدید احتجاج جاری ہے
بنگلہ دیش میں عوام بالخصوص نوجوان ایک بار پھر بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ،احتجا ج سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ بنگلہ دیشی عوام اب بھارتی مداخلت کے خلاف کھل کر مزاحمت کر رہے ہیں، بنگلہ دیش میں مظاہرین کا مؤقف ہے کہ؛”بھارت گزشتہ پانچ دہائیوں سے بنگلہ دیش کے سیاسی، ادارہ جاتی اور نظریاتی معاملات پر اثر انداز ہو رہا ہے جسے اب قبول نہیں کیا جائے گا ” عثمان ہادی کا قتل کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی داخلی سیاست میں بھارتی مداخلت کا واضح ثبوت ہے، عثمان ہادی کے قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے ، جسے کوئی بھی خود مختار ملک قبول نہیں کر سکتا ، عثمان ہادی حسینہ واجد کے حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد بھارت مخالف مظاہروں میں پیش پیش تھے،
مظاہرین نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وہ بھارت میں موجود اور عثمان ہادی کے قتل سمیت متعدد سیاسی اقدامات کی ذمہ دار ہیں،مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حسینہ واجد کو بھارت سے واپس لا کر بنگلہ دیش کے عدالتی نظام کے تحت جوابدہ بنایا جائے،احتجاج کرنے والے حلقوں نے اس تاثر کو بھی سختی سے مسترد کیا ہے کہ یہ مظاہرے کسی مخصوص مذہبی یا انتہاپسند رجحان کی عکاسی کرتے ہیں،
بنگلہ دیش کی موجودہ عوامی احتجاجی فضا گواہی دے رہی ہے کہ؛ دو قومی نظریہ محض تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ شناخت، خودمختاری اور آزادانہ قومی فیصلے کی ایک زندہ علامت ہے، جسے بیرونی طاقت کے ذریعے مٹایا نہیں جا سکتا،سیاسی مبصرین کے مطابق "خطہ میں بھارت کی بالادستی پر مبنی سوچ نے عدم استحکام کو جنم دیا ہے”بنگلہ دیش میں بھارت مخالف مظاہرے 1971 میں بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی کے دو قومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں غرق کرنے کے دعوے کی سریحا نفی ہے ، عوامی ردِعمل ایک وسیع البنیاد قومی جذبے کا اظہار ہے، جس میں نوجوان اور مختلف طبقۂ فکر بھارتی بالادستی اور سیاسی سرپرستی کے خلاف یک زبان ہیں، بنگلہ دیش میں جاری احتجاج جنوبی ایشیا کے لیے یہ پیغام واضح ہے کہ ” پائیدار امن اور استحکام صرف باہمی احترام، عدم مداخلت اور مساوی شراکت داری سے ہی ممکن ہے”سیاسی مبصرین کے مطابق بنگلہ دیش کی یہ تحریک صرف ایک قتل کے خلاف نہیں بلکہ بھارت کی طویل بالادستانہ پالیسیوں کے خلاف عوامی ردِعمل ہے،یہ ایک نظریے کی آواز ہے جو بھارتی آلۂ کار شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کی بیٹی کے ذریعے مسلط کی گئی نسلی سوچ کے خلاف بول رہی ہے، پاکستان کو بھی خطے میں ایک ذمہ دار اور استحکام کے داعی ملک کے طور پر بنگلہ دیش کی خودمختاری، پرامن جدوجہد اور عوامی امنگوں کی حمایت کو اجاگر کرنا چاہیے،








