ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ جب تک قانون میں میئر کے اختیارات اور کردار کو واضح طور پر متعین نہیں کیا جاتا، اس وقت تک کمیونٹی پولیسنگ کا نظام مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا۔

کراچی ایکسپو سینٹر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان کی بہتری، شہری مسائل کے حل اور عوامی سطح پر قانون نافذ کرنے کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے مقامی حکومتوں کو حقیقی معنوں میں بااختیار بنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ میئر اور بلدیاتی نمائندوں کو واضح قانونی اختیارات دیے بغیر کسی بھی اصلاحاتی ماڈل کی کامیابی ممکن نہیں۔ڈاکٹر فاروق ستار نے 28ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کے ذریعے ملک میں نئے انتظامی یونٹس بنانے سے متعلق فیصلے ہونے چاہئیں، کیونکہ موجودہ آبادی اور شہری پھیلاؤ کے پیشِ نظر بڑے صوبے اب انتظامی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی، شہری مسائل اور انتظامی پیچیدگیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ نظام ناکافی ہو چکا ہے۔

ویڈیو:بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے زبردستی خاتون کا نقاب کھینچنے پر اسلام آباد میں احتجاج

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ بہتر حکمرانی، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عوام کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کرنے کے لیے نئے انتظامی یونٹس کا قیام وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں مؤثر طرزِ حکمرانی کے لیے انتظامی اکائیوں کو آبادی اور جغرافیے کے مطابق منظم کیا جاتا ہے، جبکہ پاکستان میں اس اصول کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترمیمی بل، جو آرٹیکل 148 سے متعلق ہے، کو 28ویں آئینی ترمیم کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے۔ ان کے مطابق اس بل کا مقصد وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان اختیارات اور ذمہ داریوں کو واضح کرنا ہے تاکہ انتظامی خلاء ختم ہو سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ مقامی حکومتوں کو اختیارات اور وسائل دیے بغیر نہ تو امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جا سکتی ہے اور نہ ہی شہری مسائل کا پائیدار حل ممکن ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے نچلی سطح پر مضبوط اور خودمختار بلدیاتی نظام قائم کرنا ہوگا۔

Shares: