ترکیہ میں طیارہ اڑان بھرنے کے بعد گر کر تباہ ہوگیا، طیارے حادثے میں لیبیا کے فوجی سربراہ بھی جاں بحق ہوگئے۔

لیبیا کے وزیرِاعظم عبد الحمید دبیبہ نے تصدیق کی ہے کہ لیبیا کے آرمی چیف آف اسٹاف جنرل محمد علی احمد الحداد اور چار دیگر اعلیٰ لیبیائی عہدیدار ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے قریب ایک فضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ یہ افسوسناک حادثہ منگل کی شب اس وقت پیش آیا جب یہ وفد انقرہ کے دورے کے بعد وطن واپسی کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔وزیرِاعظم عبد الحمید دبیبہ نے اپنے بیان میں اس واقعے کو ایک “دلخراش حادثہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سانحہ پوری قوم، عسکری ادارے اور عوام کے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔ ان کا کہنا تھا“ہم نے ایسے افراد کو کھو دیا ہے جنہوں نے اخلاص، لگن اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے وطن کی خدمت کی، اور جو نظم و ضبط، قومی وابستگی اور فرض شناسی کی مثال تھے۔”

ترکی کے وزیرِ داخلہ علی یرلیکایا کے مطابق فالکن 50 بزنس جیٹ نے منگل کی شام 8 بج کر 10 منٹ (17:10 GMT) پر انقرہ کے ایسن بوغا ایئرپورٹ سے طرابلس کے لیے پرواز بھری۔ طیارے سے آخری ریڈیو رابطہ 8 بج کر 52 منٹ (17:52 GMT) پر ہوا۔انہوں نے بتایا کہ پرواز کے دوران ہایمانا ضلع کے اوپر طیارے نے ہنگامی لینڈنگ کی درخواست کی، تاہم اس کے بعد رابطہ قائم نہ ہو سکا۔

ترکی کی جینڈرمیری نے طیارے کا ملبہ انقرہ سے تقریباً 74 کلومیٹر (45 میل) دور ہایمانا ضلع کے علاقے کیسیق کاواک گاؤں کے جنوب میں تقریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر تلاش کر لیا۔

ترکی کی وزارتِ دفاع نے اس سے قبل اعلان کیا تھا کہ جنرل الحداد اس ہفتے سرکاری دورے پر انقرہ آئے تھے، جہاں انہوں نے اپنے ترک ہم منصب اور دیگر اعلیٰ عسکری کمانڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعاون کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا تھا۔

جنرل الحداد کی عسکری خدمات
سیاسی تجزیہ کار ٹرائنا کے مطابق جنرل محمد علی احمد الحداد ایک پیشہ ور اور بااصول فوجی تھے جنہیں لیبیا کے مغربی علاقوں میں وسیع احترام حاصل تھا۔انہوں نے کہا“وہ ایک ایسے فوجی تھے جو ہمیشہ قانون کے مطابق چلتے، کسی بھی طاقتور ملیشیا کا ساتھ نہیں دیتے تھے اور اصولوں پر قائم رہتے تھے۔ لیبیائی فوجی ادارے کے لیے یہ واقعی ایک بہت بڑا نقصان ہے۔”ٹرائنا کے مطابق اگرچہ جنرل الحداد کئی دہائیوں تک فوج سے وابستہ رہے، تاہم معمر قذافی کے خلاف بغاوت کے دوران انہوں نے باغیوں کے ساتھ نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

Shares: