لاہور ہائیکورٹ نے پراپرٹی اونرشپ ایکٹ کے تحت کارروائیوں کے خلاف درخواستیں فل بینچ کے سامنے لگانے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے شہری مشتاق احمد سمیت دیگر درخواستوں پر سماعت کے دوران کہا کہ معاملہ سول کورٹ میں زیر التوا ہوگا تو ڈی سیز متعلقہ کورٹ میں درخواست دے گا، سول کورٹ پابند ہوگی کہ کیس ٹریبونل کو بھجوائے، تقریباً ڈھائی ماہ بعد آپ نے ٹریبونلز کا نوٹیفکیشن کیا، ابھی تک آپ کے ٹریبونلز نے کام ہی شروع نہیں کیا،چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ بغیر کسی آرڈر کے زبانی طور پر قبضے کیسے دلوائے جارہے ہیں؟ عدالت بغیر آرڈر کے آپ کو کچھ کہے تو کیا آپ مان لیں گے؟
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈی سی شیخوپورہ نے زبانی قبضے کا آرڈر دیا ہے، کیس ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا اس کے باوجود ڈپٹی کمشنر نے قبضہ کروایا،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے مزید 10درخواستوں پر ڈی سیز کی کاروائی کو روک دیا،چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری وکیل صاحب بار بار پوچھ رہی ہوں بتائیں کہ ہائیکورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود کمیٹیاں کیسے کاروائی کررہی ہیں ؟اب آپ کو نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیں آپ انارکی پھیلا رہے ہیں ،آرڈنینس میں کہاں لکھا ہے کہ ڈی سی ٹربیونل کے اختیار استعمال کرے گا ؟ پنجاب حکومت کا وکیل عدالت میں کوئی جواب نہ دے سکا ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس میرے کسی سوال کا جواب نہیں ،آپکا قانون تھا کہ سول کورٹ میں کیس ہو گا تو ڈی سیز عدالت میں درخواست دے گا ،سول کورٹ میں درخواست دینا تو دور ہائیکورٹ کے احکامات کو بھی اڑا دیا گیا،یہ لیگل ایشوز ہیں ایسے آپ کام کرینگے تو سوسائٹی میںں انارکی پھیلے گی،قانون شہادت کو آپ نے ختم کردیا ہے جس کو آئین پاکستان تحفظ دیتا ہے،وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پراپرٹی پر قبضہ لیا گیا مگر ڈپٹی کمشنر تحریری احکامات نہیں دے رہا،سرکاری وکیل نے کہا کہ رولز ابھی آنے ہیں ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رولز کب آنے ہیں؟ کاروائیاں کی جارہی ہیں،بغیر رولز بنے کیسے کارروائیاں ہوسکتی ہیں؟آپ یہ بتائیے کہ جب ڈی سیز آرڈر نہیں دے گا تو متاثرہ فریق آرڈر چیلنج کیسے کرے گا،متاثرہ فریق نے بغیر آرڈر کے درخواستیں دی تو آفس نے اعتراض لگا دیا،اب آپ یہ بتائیں کہ متاثرہ فریق کہاں جائیں،یہ آپکے سامنے متاثرہ شخص کھڑا ہے آپ بتائیں ان کے پاس کیا آپشن ہے ،قانون مکمل ہوتا ہے نا مکمل کچھ نہیں ہوتا ،عدالت میں کیس آنے کے بعد آپ نے ٹریبونلز کا نوٹیفکیشن کیا ہے ،وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ڈی سی شیخوپورہ نے زبانی طور پر قبضے کا آرڈر دیا ،چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ تمام درخواستوں میں سنگین نوعیت کے الزامات ہیں ،ہم اس لیے ہر کیس دیکھ رہے ہیں کہ آپکو پتہ چلے کہ ہو کیا رہا ہے ،آپکو پتہ چلے کہ قانون کیا تھا اور کام کیا ہو رہا تھا،آپ کے علم میں آئے کیسے اختیار سے تجاوز کیا جا رہا ہے ،وکیل درخؤاست گزار نے کہا کہ ہائیکورٹ میں کیس زیر سماعت تھا اس کے باوجود ڈپٹی کمشنر نے قبضہ کروایا ،چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ایکٹ میں ہے کہ اگر معاملہ سول کورٹ میں زیر التوا ہوگا تو ڈی سی متعلقہ کورٹ میں درخواست دے گا ،سول کورٹ پابند ہوگی کہ کیس کو ٹریبونل کو بھجوایاجائے ،سرکاری وکیل صاحب بتائیے کیا اس نقطے پر عمل ہورہا ہے؟یہ جو شور مچایا ہے سارے جہاں میں ٫٫ کام تو پھر کام ہوتا ہے ،آپ کے قانون میں تو کچھ بھی نہیں لکھا ،یہ بتائیے کہ کہاں لکھا ہے کمیٹیاں قبضہ دلوائیں گی؟قانون میں ہے کہ ٹریبونل کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد قبضہ ہوگا ،پیرا کیسے قبضے دلوا رہا ہے؟
کمیٹی پیرا کو کہتی ہے ، پیرا قبضہ دلوا دیتی ہے ،بغیر کسی آرڈر کے زبانی طور پر قبضے کیسے دلوائے جا رہےہیں؟
کیا اگر یہ عدالت بغیر آرڈر کے آپکو کچھ کہے تو کیا آپ مان لیں گے؟آپ تو کہیں گے کہ پہلے آرڈر دکھائیں پھر آگے بات کریں ،سرکاری وکیل صاحب بتائیے کہ کیا زبانی احکامات ٹریبونل نے جاری کیے؟ کیا ٹریبونلز نے کام شروع کردیا ہے؟ ابھی تک اپکے ٹریبونلز نے کام نہیں شروع کیا ،نہ عملہ ہے نا یہ پتہ ہے کہ ٹربیونل کہاں بیٹھیں گے ،کیا یہ اختیارات سے تجاوز نہیں؟کیا قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا ہے،تمام چیزیں بتانا پڑتی ہیں کہ کوئی درخواست آئے تو کس طرح کارروائی ہوگی








