پاکستان میں آئین بننے اور ٹوٹنے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود ریاست، عوام نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کبھی آئین معطل ہوا، کبھی توڑا گیا اور کبھی آئین کو محض ایک تقریری کتاب بنا کر الماریوں میں بند کر دیا گیا۔ سوال یہ نہیں کہ آئین کتنی بار بنا اصل سوال یہ ہے کہ آئین پر کب اور کس نے عمل کیا؟ جمہوریت کے نام پر جلسے ہوئے نعروں کی گونج رہی مگر جمہوریت کے ثمرات کبھی گلی، محلے، کھیت اور کارخانے تک نہ پہنچ سکے۔ ووٹ مانگا گیا، اقتدار ملا مگر عام آدمی کے مسائل ہر دور میں پس منظر میں دھکیل دئیے گے۔ ریاست ہو گی ماں جیسے نعرے لگائے گے۔ قانون کی حکمرانی محض تقاریر اور قراردادوں تک محدود رہی، قانون کمزور کے لیے سخت اور طاقتور کے لیے نرم ثابت ہوا۔ توانائی کے بحران دہائیوں تک قومی و مباحث کا حصہ رہے مگر بجلی اور گیس کے بحران کا مستقل حل کسی حکومت کی ترجیح نہ بن سکا، وقتی اقدامات سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور الزام تراشی کے سوا عوام کو کچھ نہ ملا، ہر آنے والا حکمران ماضی کو کوستا رہا، اور مستقبل کو وعدوں کے رحم و کرم پر چھوڑتا رہا۔ سچ یہ ہے کہ وطن عزیز میں اقتدار کی سیاست زیادہ تر عوامی خدمت نہیں بلکہ ذاتی و گروہی مفادات کی جنگ رہی ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کو نعرہ ضرور بنایا گیا مگر اسے قومی عہد کبھی بھی بنایا نہ جا سکا عام آدمی آج بھی اسی سوال کیساتھ کھڑا ہے کیا یہ خوبصورت وسائل سے مالا مال ملک کبھی اسکے لیے بھی بنے گا؟ قصہ مختصر آئین، جمہوریت، قانون یہ سب الفاظ پاکستان میں بہت استعمال ہوئے مگر کم برتے گے۔ پاکستان میں آئین محض ایک دستاویز نہیں بلکہ ایک اجتماعی عہد تھا مگر افسوس کہ یہ عہد ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا۔
جمہوریت کے نعرے یہاں سب سے زیادہ لگے مگر جمہوریت سب سے زیادہ مظلوم رہی پارلیمان کے تقدس کے قصیدے پڑھے گے مگر عام آدمی کو کچھ نہ ملا۔ جمہوریت اگر عوام کی فلاح کا نام ہے تو پھر یہ کیسی جمہوریت ہے جس کے ثمرات صرف ایوانوں تک محدود رہے؟ قانون کی حکمرانی کے نعرے لگاتے رہے مگر قانون کمزور کے لیے زنجیر اور صاحب اقتدار کے لیے سہارا بن گیا۔ توانائی بحران دہائیوں تک قومی المیہ بنا رہا مگر کسی حکومت نے اسے قومی، ہنگامی حالت سمجھنے کی زحمت نہ کی، بجلی اور گیس کے بحران کو وقتی نعروں سبسٹڈیوں اور بیانات سے ٹالا جاتا رہا یہ بحران نہیں طرزِ حکمرانی کی نااہلی کا مسلسل ثبوت تھا۔ سیاست خدمت نہیں اقتدار کی کشمکش رہی ملک کی تعمیر و ترقی کو قومی فریضہ نہیں بلکہ انتخابی نعرہ بنا دیا گیا۔ ناکامیوں، آئینی انحرافات اور سیاسی مفادات کی جنگ کے تمام تر حقائق کے باوجود ایک سچ ایسا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
پاکستان اگر آج بطور ریاست قائم ہے اگر اسکے شہر، گاؤں اور سرحدیں دشمن کی یلغار سے محفوظ ہیں تو اسکے پیچھے وہ خون ہے جو پاک فوج کے جوانوں نے اس مٹی کے لیے بہایا یہ کوئی جذباتی دعوی نہیں یہ زمینی حقیقت ہے۔ ملک کے ہر حصے میں، ہر ضلعے، ہر قصبے کے قبرستان گواہ ہیں کہ اس دھرتی کی حفاظت صرف بیانات سے نہیں لاشوں، قبروں اور پرچم میں لپٹی میتیوں سے ہوئی ہے۔ جوانوں نے نہ حکومت دیکھی، نہ اقتدار، نہ مفاد انھوں نے صرف وردی دیکھی حلف دیکھا اور وطن کی مٹی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز جانا، انکی قربانیوں کی بدولت آج سیاست دان سیاست کر رہے ہیں۔ ادارے تنقید برداشت کر رہے ہیں اور عوام بھی سوال اٹھانے کے قابل ہے۔ آج ہم اگر قلم اٹھا سکتے ہیں، اختلاف کر سکتے ہیں، سوال پوچھ سکتے ہیں تو یہ آزادی ہمیں انہی قبروں سے ملتی ہے جن پر سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے۔ یہ بھی تاریخ کا کڑوا سچ ہے کہ ریاستی غلطیوں کی قیمت اکثر وردی نے ادا کی ہے جب پالیسی ناکام ہوئی تو بندوق تھامنے والا جوان آگے تھا، جب دشمن نے وار کیا تو سینہ تان کر کھڑا ہونے والا سپاہی تھا۔ شہادت اپنی جگہ مگر وطن کی حفاظت کا آخری مورچہ ہمیشہ پاک فوج ہی بنی۔ یہ ملک کسی تقریر سے نہیں، کسی نعرے سے نہیں بلکہ شہداء کے خون سے کھڑا ہے۔ اگر آج پاکستان محفوظ ہے تو یہ کسی ایک حکومت، ایک جماعت یا ایک دور کا کارنامہ نہیں بلکہ ان ماؤں کی قربانی ہے جہنوں نے بیٹے دئیے، ان بیویوں کی خاموشی ہے جہنوں نے سہاگ قربان کیا۔ اور ان بچوں کی آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے وہ خواب ہیں جو وطن پر نثار ہو گے۔ یہ قرض شاید کبھی ادا نہ ہو سکے مگر یاد رکھنا، ماننا اور سرجھکانا کم از کم ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔








