سابق بنگلادیشی وزیرِاعظم خالدہ ضیا کے صاحبزادے، بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے قائم مقام چیئرمین اور ملک کی اپوزیشن سیاست کے اہم ترین رہنما طارق رحمان 17 سالہ طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچ گئے۔ ان کی واپسی کو بنگلادیش کی سیاست میں ایک بڑی پیش رفت اور اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔
طارق رحمان کی ڈھاکا آمد پر پارٹی کارکنوں اور حامیوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔ شہر کے مختلف علاقوں میں بی این پی کے جھنڈے، بینرز اور پوسٹرز آویزاں کیے گئے، جبکہ کارکنوں نے نعرے بازی کرتے ہوئے طارق رحمان کا والہانہ استقبال کیا۔ ڈھاکا کی کئی مرکزی شاہراہیں عوامی اجتماع کی وجہ سے بھر گئیں اور فضا سیاسی جوش و خروش سے گونجتی رہی۔سیاسی مبصرین کے مطابق طارق رحمان کی وطن واپسی کو فروری 2026 میں متوقع عام انتخابات کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی موجودگی بی این پی کو ایک بار پھر منظم اور متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے، جبکہ حکمران جماعت کے لیے بھی یہ ایک بڑا سیاسی چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ طارق رحمان کو پارٹی کی انتخابی حکمتِ عملی کا معمار سمجھا جاتا ہے اور ان کی قیادت میں بی این پی آئندہ انتخابات میں بھرپور کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گی۔
طارق رحمان کی سیاسی زندگی اتار چڑھاؤ سے بھرپور رہی ہے۔ وہ 2008 میں مختلف مقدمات کے تناظر میں 18 ماہ قید کاٹنے کے بعد علاج اور دیگر وجوہات کی بنا پر برطانیہ منتقل ہو گئے تھے، جہاں وہ طویل عرصے تک مقیم رہے۔ اس دوران انہوں نے جلاوطنی میں رہتے ہوئے بھی پارٹی امور اور سیاسی بیانات کے ذریعے بنگلادیشی سیاست میں اپنی موجودگی برقرار رکھی۔بی این پی رہنماؤں نے طارق رحمان کی واپسی کو “جمہوری جدوجہد کی نئی شروعات” قرار دیا ہے، جبکہ عوامی حلقوں میں بھی اس پیش رفت پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں طارق رحمان کا سیاسی کردار، بی این پی کی حکمتِ عملی اور حکومت کے ردعمل سے بنگلادیش کی سیاست میں ایک نئی سمت متعین ہو سکتی ہے۔








