بی آئی ایس پی، قوم کو بھکاری بنانے کی سازش تو نہیں؟
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان میں غربت کے خاتمے اور کمزور طبقات کو معاشی تحفظ فراہم کرنے کے دعوے کے ساتھ شروع کیا گیا "بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام” (BISP) آج ایک ایسے سوالیہ نشان کی صورت اختیار کر چکا ہے جو ارباب اختیار کے دعوؤں اور عملی اقدامات کے درمیان وسیع خلیج کو واضح کرتا ہے۔ یہ پروگرام، جو 2008 میں غریب خاندانوں، بالخصوص خواتین کو مالی معاونت فراہم کر کے انہیں معاشی بھنور سے نکالنے کے نیک مقصد کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، اب خود کرپشن، ناانصافی اور عوامی تضحیک کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ کروڑوں غریب پاکستانیوں کی آنکھوں میں امید کی کرن جگانے والا یہ پروگرام آج قوم کو کشکول تھمانے اور اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ کیا یہ واقعی غربت مٹانے کی کوشش ہے، یا پھر حکمرانوں کی جانب سے قوم کو مستقل بھکاری بنانے کی ایک سوچی سمجھی سازش؟
جب BISP کے تحت گھر گھر سروے کا اعلان ہوا تو عوام نے امید کی کہ شاید اب واقعی حق داروں کو ان کا حق ملے گا۔ دعویٰ کیا گیا کہ مستحق خاندانوں کی شناخت شفاف طریقے سے ہوگی، لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ یہ سروے گھر گھر نہیں کیے گئے، بلکہ ان کا عمل مخصوص ایجنٹوں کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے عوامی بھلائی کو اپنی ذاتی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ اطلاعات کے مطابق، ہر سروے ایجنٹ نے مستحق خواتین کے نام شامل کرنے کے لیے مبینہ طور پر 2000 سے 3000 روپے فی خاتون بطور رشوت لیے۔ اس کے نتیجے میں، وہ گھرانے جو حقیقتاً مدد کے مستحق تھے، وہ اس فہرست سے باہر رہ گئے، جبکہ رشوت دینے والے غیر مستحق افراد مستفید ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا۔ BISP کے ذریعے جو سہ ماہی قسط یعنی 13500 روپے کی رقم دی جاتی ہے، وہ بھی مکمل طور پر مستحق خواتین تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایک بار پھر وہی ایجنٹ یا مقامی بینک عملہ میدان میں آتے ہیں اور فی قسط 1000 سے 2000 روپے "کٹوتی” کے نام پر اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ غریب عورتیں، جو پہلے ہی کسمپرسی کا شکار ہوتی ہیں، وہ اس کٹوتی کے خلاف آواز بلند کرنے سے قاصر رہتی ہیں کیونکہ یہ پیسہ ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوامی پوسٹس اور رپورٹس اس تلخ حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ غریب خواتین کو یہ رقم حاصل کرنے کے لیے طویل قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے، اور کٹوتی کے بعد ان کے ہاتھ میں بہت کم رقم آتی ہے۔ کیا یہی ریاستی ریلیف ہے؟ یا یہ قوم کو بھکاری بنانے کا نیا انداز؟
یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ کسی کی بیٹی، کسی کی بہن، یا کسی کی ماں 13500 روپے کے لیے لمبی لائنوں میں ذلیل ہو۔ کیا یہ ہمارا اسلامی، مشرقی اور اخلاقی معاشرہ ہے؟ خواتین جو اپنے گھروں میں پردے اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہیں، انہیں سرعام قطاروں میں کھڑا کر کے ان کی عزت پامال کی جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں بے غیرت ایجنٹ ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں، ان سے رشوت لیتے ہیں، اور کئی بار ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ "یہ امداد نہیں، بلکہ قوم کو بھکاری بنانے کا منصوبہ ہے۔” یہ الفاظ درحقیقت کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آواز ہیں جو اس تذلیل کو روز دیکھتے اور جھیلتے ہیں۔ اگر حکمران واقعی قوم سے مخلص ہوتے، تو یہی پروگرام معاشی خود انحصاری کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ بجائے محض وظیفہ دینے کے، حکومت کو چاہیے تھا کہ ان خاندانوں کے سربراہان یا بے روزگار نوجوانوں کو "ون ٹائم گرانٹ” جاری کرتی تاکہ وہ اپنا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے۔ اس کے بعد ہر چھ ماہ بعد ان کے کاروبار کی انسپیکشن کی جاتی، بہتری کے لیے رہنمائی کی جاتی، اور انہیں عزت کے ساتھ جینے کا موقع دیا جاتا۔ مگر شاید حکمران چاہتے ہی نہیں کہ قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہو۔ انہیں ایک ایسی قوم چاہیے جو ہر سہ ماہی پر کشکول لے کر لائنوں میں لگے، عزت نفس قربان کرے، اور در در کی ٹھوکریں کھائے۔
بی نظیر انکم سپورٹ پروگرام، جو غریب خاندانوں کے لیے امید کی کرن بن سکتا تھا، کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ پروگرام غربت کو کم کرنے کے بجائے قوم کو محتاج بنا رہا ہے، اور عوام کے ہاتھ میں کشکول تھما رہا ہے۔ اگر حکمرانوں کی ترجیحات میں قوم کی فلاح شامل ہو، تو وہ اس پروگرام کو ایک بھکاری بنانے والی مشین سے تبدیل کر کے ترقی کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رشوت خور ایجنٹوں اور کرپٹ افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہیں قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ شفاف ڈیجیٹل سروے کرایا جائے جو بغیر کسی انسانی مداخلت کے مکمل ہو، نادرا کے ڈیٹابیس سے منسلک کر کے اور مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کر کے مستحقین کی درست شناخت یقینی بنائی جائے۔ BISP کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہنر مند تربیت، چھوٹے قرضوں، اور کاروباری رہنمائی پر خرچ کیا جائے۔ خواتین اور نوجوانوں کے لیے مفت ہنر مندی کورسز (جیسے ڈیجیٹل مارکیٹنگ، فری لانسنگ، یا زرعی تربیت) شروع کیے جائیں تاکہ وہ خود کفیل ہو سکیں۔ نقد امداد کی بجائے، بے روزگار نوجوانوں یا گھر کے سربراہوں کو ایک دفعہ کے لیے گرانٹ (مثلاً 1 سے 2 لاکھ روپے) جاری کی جائے جس سے وہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کر سکیں۔ امداد کی تقسیم کو ایجنٹس کے بجائے براہ راست مستحقین کے بینک اکاؤنٹس یا موبائل ایپلیکیشنز (جیسے ایزی پیسہ یا جاز کیش) کے ذریعے کیا جائے۔ ہر تقسیم کے بعد آڈٹ کیا جائے تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو۔
حکمرانوں کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ قوم کو خیرات نہیں، عزت چاہیے۔ یہ 13500 روپے کی سہ ماہی قسط اگر کسی ماں بہن کی عزت نفس کو پامال کر دے، اسے سڑکوں پر ذلیل کر دے، اور رشوت خوروں کی ہوس کا شکار بنا دے تو یہ ریلیف نہیں بلکہ ریاستی جرم ہے۔ جو ریاست اپنی خواتین کو معاشی تحفظ دینے کے بجائے بازاروں میں قطاروں میں کھڑا کر دے، وہ ریاست نہیں بلکہ تماشا بن جاتی ہے۔ اگر واقعی حکمران فلاحی ریاستِ کا خواب سچ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی قوم کو کشکول سے نجات دینی ہوگی، خیرات کے بجائے خودداری سکھانی ہوگی اور بھیک مانگنے کے بجائے روزگار پیدا کرنا ہوگا۔ قوموں کی ترقی وظیفوں سے نہیں بلکہ عزت، محنت اور شفاف نظام سے ہوتی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ حکمران اپنی ترجیحات بدلیں، ورنہ یہی قوم ایک دن سوال کرے گی کہ کیا تمہیں بھکاری بنانے کے لیے ووٹ دیا تھا یا باوقار زندگی کی امید پر؟ اب یہ فیصلہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ قوم کو عزت دیتے ہیں یا اسے مزذلت کے اندھیروں میں دھکیلتے رہتے ہیں۔