ریاست کے اندد ریاست کی وجوہات
از قلم غنی محمود قصوری
آئے روز سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے اتنے بندوں کو اغواء کرنے کے بعد تاوان نا ملنے پر مار دیا ،آجکل بہت زیادہ ویڈیوز آ رہی ہیں جس میں کچے کے ڈاکو مغویوں کو درندوں کی طرح مار پیٹ کرتے ہوئے ان کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں جس سے ملک کے اندر عدم اعتمادی اور خوف کی فضاء بڑھ رہی ہے

یہ کچے کے ڈاکو کوئی نئے نہیں ہیں یہ بہت پرانے ہیں اتنے پرانے کے 1991 میں انہوں نے سندھ سے 3 چینی انجینئرز کو اغواء کیا تھا،یہ پرانے ڈاکو اب اس قدر جدت پسند ہوگئے ہیں کہ اب ان کی جانب سے لوگوں کو اغواء کرنے کی 90 فیصد وارداتیں سوشل میڈیا پرسرانجام دی جاتی ہیں

سندھ پولیس کے پاس جب سیمی آٹو میٹک کاربن سیمونوف جیسی پرانی گنیں تھیں تب ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین کلاشنکوفیں تھیں اور آج ان ڈاکوؤں کے پاس ایم فور سے لے کر جدید سنائپر گنز،طیارہ شکن گنز،اینٹی ٹینک راکٹ لانچرز،ہینڈ گرنیڈز اور مائنز تک موجود ہیں، نیز یہ لوگ جدید ترین کمیونیکیشن کا نظام بھی رکھتے ہیں

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کچے کے علاقے میں فور جی انٹرنیٹ سروس بلا تعطل چلتی ہے اور یہ ڈاکو بڑے آرام سے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے پاکستان بھر سے لوگوں کو سستی چیزیں بیچنے کا لالچ دے کر اپنے علاقوں میں بلاتے ہیں اور پھر انہیں ہنی ٹریپ کرتے ہیں،یعنی پہلے یہ ڈاکو خود جا کر لوگوں کو شاہراہوں،دفتروں، بازاروں،گھروں سے اغواء کیا کرتے تھے اب اس کے برعکس لوگ خود چل کر ان کے پاس اغوا ہونے جاتے ہیں

بہت سی ایسی وارداتیں بھی دیکھنے کو ملی ہیں جس میں یہ لوگ سستی چیزیں بیچنے کی لوکیشن کسی اور شہر کی ڈالتے ہیں اور پھر وہاں سے لوگوں کو اغواء کر لیتے ہیں جیسے کہ دو ماہ قبل قصور سے دو نوجوان اغواء ہوئے جو کہ مری سے سستی گاڑی کا اشتہار دیکھ کر قصور پہنچے اور پھر وہاں سے اغواء ہو کر کچے کے ڈاکوؤں تک پہنچائے گئے جس سے لگتا ہے کہ کچے کے ڈاکو کچے کے علاقے تک محدود نہیں رہے بلکہ پورے پاکستان میں اپنا نیٹ ورک بنا چکے ہیں

کچے کا علاقہ تین صوبوں کے بارڈرز کیساتھ ہے،پنجاب کا ضلع صادق آباد و ذیلی علاقے،سندھ کا ضلع کشمور و ذیلی علاقے اور سندھ سے بلوچستان کی جانب منگھو پیر،نادرن بائی پاس ،گڈاپ کے علاقے ان ڈاکوؤں کی آماجگاہ ہیں

ماضی میں بھی کبھی سندھ کے علاقے میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن ہوئے تو کبھی پنجاب میں مگر کوئی خاطر خواہ نتائج نا نکلے جس کی وجہ ان ڈاکوؤں کی پناہگاہیں ہزاروں ایکڑ جنگلات میں ہونا،اعلی سول و پولیس افسران کیساتھ سیاستدانوں کی پشت پناہی اور کمزور ترین عدالتی نظام کا ہونا ہے

اب ایک بار پھر سے ان ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے جو کہ بہت اچھی اور خوش آئند بات ہے ،جہاں ان ڈاکوؤں کو ختم کرنا بہت ضروری ہے وہاں وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ان ڈاکوؤں کو بننے سے روکا جائے،جی بالکل عام انسانوں کو ڈاکو بننے سے روکا جائے

ہمارے معاشرے میں ظلم وجبرکرکے ڈاکو بنائے جاتے ہیں،جب وڈیرے جاگیردار سرعام عزتوں کو تار تار کریں،سرعام زمینوں پر قبضے کریں اور لوگوں کو کمتر جان کر سرعام رسوا کریں وہ مظلوم اپنی شنوائی کی خاطر تھانے کا رخ کریں جہاں اس وڈیرے جاگیر دار ،سیاست دان ،چوہدری کا حمایتی تھانے دار مزید رسوا کرکے تھانے سے نکال دے،بفرض کوئی تھانے سے انصاف لے بھی لے تو سالوں تک عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر ذلیل و رسوا ہو کربالآخر انصاف بک جائے اورفیصلہ اسی کے خلاف آئے تو وہاں ڈاکو بننا بعض اوقات ضروری ہوتا ہے

ایک بار کچے کے ایک ڈاکو نے پاکستان کے مشہور صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں انصاف کی امید ہو تو ہم کیوں جنگلوں میں مارے مارے پھریں؟ ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ ہمارے بچے سکولوں،کالجوں میں پڑھیں،اچھا کمائیں،اچھا کھائیں اور ایک باوقار شہری بنیں،اس ڈاکو نے صحافی سے سوال کیا تھا کہ آپ قسم اٹھا کر بتلائیں کیا یہ سب کچھ معاشرے میں رہتے ہوئے ہم عام آدمیوں کیساتھ ہونے نہیں دیا جاتا قانون کی پشت پناہی میں؟

یہ ڈاکو بڑے ظالم ہوتے ہیں لوگوں کا مال ناجائز کھاتے ہیں اور ان کی جانوں کو ختم کرتے ہیں جس کی شرعی و قانونی سخت ترین سزا ہے مگر یہ بھی سوچئے کہ جب انہی ڈاکوؤں سے عام آدمی کی صورت میں دوسروں کی جانب سے سخت زیادتی کی جاتی ہے اگر تب ہی کنٹرول کر لیا ہوتا تو آج یقیناً ہر عام انسان کبھی ڈاکو نا بنتا

جہاں اس معاشرے کا ناسور یہ ڈاکو ہیں وہاں ذات پات کی اونچ نیچ،جاگیرداری کے نشے میں مست ظالم لوگ اور اندھا قانون بھی ڈاکو بناتا ہے
جہاں ان ڈاکو ؤں کا قلع قمع ضروری ہے وہاں اس نظام کا خاتمہ بھی ضروری ہے،اکثر و بیشتر ظالم کا ظلم سہہ کر اس راہ پر چلنے والے لوگ اپنے اوپر ہوئے ظلم کا بدلہ لینے کی خاطر کمزور لوگوں سے بدلہ لیتے ہیں اور پھر دہشت و شہرت حاصل کرکے انہی لوگوں کی پشت پناہی حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جنہوں نے ماضی میں ان پر ظلم کرکے انہیں مظلوم سے ظالم بنایا ہوتا ہے

اس وقت گورنمنٹ کو چائیے کہ آپریشن کیساتھ ان سے مذکرات بھی کئے جائیں تاکہ ان کو احساس ہو کہ قانون مارنا ہی نہیں پالنا بھی جانتا ہے
تاکہ آئندہ کبھی بھی ریاست کوئی چیلنج نہ کرسکے اور "ریاست کے اندد ریاست” بنانے کی کسی کوجراََت نہ ہو اور وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی ہو اورشہری امن وسکون سے بلاخوف اپنی زندگی گذارسکیں.

Shares: