مزید دیکھیں

مقبول

کراچی میں نیا دھندہ، چوری کی موٹر سائیکل کے بدلے میں منشیات

اگر منشیات خریدنے کے پیسے نہیں تو کوئی بھی...

سوشل میڈیا پر اسلحہ کی نمائش و ہوائی فائرنگ، ملزم گرفتار

من وامان کی فضاء برقرار رکھنے کیلئے لاہو رپولیس...

اب شناختی کارڈ نمبر ہی ان کا میڈیکل ریکارڈ نمبر ہوگا،مصطفیٰ کمال

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر مرکزی رہنما و...

دریا دل "سردار کوڑے خان” کے نام سے چلنے والے سکول کی این جی او کو حوالگی ۔۔۔ نعمان بھٹہ

سردار کوڑے خان جتوئی ضلع مظفر گڑھ کا ایک رئیس گزرا ہے۔ جو ان پڑھ ہونے کے باوجود اپنی معاملہ فہمی ، تدبر ، سخاوت اور رفاہی کاموں میں پیش پیش رہتا تھا ۔ انگریز حکومت نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ” خان بہادر ” کے خطاب سے نوازااور انہیں آنریری مجسٹریٹ کاعہدہ دیا گیا۔انہوں نےسر سید احمد خان کی علی گڑھ تحریک میں برصغیر میں سب سے زیادہ فنڈ دئیے، جو کہ تاریخ کا حصہ ہے۔
سردار کوڑے خان نے پانچ شادیاں کیں لیکن خدا کی مرضی کہ ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔انہوں نے 1892ء میں اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ تقریبا ایک لاکھ (100000) کنال زمین رفائے عامہ کے کاموں کے لئے وقف کر کےاس وقت کی حکومت کے حوالے کر دی جو بعدازاں ضلعی انتظامیہ کے سپرد ہو گئی۔اس زمین کی آمدنی کیا تھی اور یہ کہاں خرچ ہوتی تھی اس کا کوئی حساب نہ رکھا گیا اور یہ مال غنیمت کی طرح کئی دہائیاں خرد برد ہوتی رہی۔ضلع کونسل نے 1983 ء میں سردار کوڑے خان پبلک سکول کی بنیاد رکھی اس سکول کو پہلے پانچ سات سال تو ضلع کونسل نے چلایا پھر خود مختیار ادارہ بنا کر اس سے ہاتھ کھینچ لیاگیا۔ دو چار سال ایک مختصر سی سالانہ گرانٹ بھی دی جاتی رہی جو بعد میں 1992ء میں بند کر دی گئی۔اس کے بعد یہ ادارہ خود کماؤ خود کھاؤ کے اصول کے مطابق چلنے لگا۔انہی دنوں حکومت کی طرف سے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر پر ڈویژنل پبلک سکول بنانے کے لئے فنڈ آئےجس کے لئے زمین بھی دی گئی تھی لیکن معلوم نہیں کیوں مظفر گڑھ میں "ڈویژنل پبلک سکول ” نہ بن سکا بلکہ سردار کوڑے خان پبلک سکول کو ہی” ڈویژنل پبلک سکول” کے طرز پر چلایا جانے لگا۔سکول کا انتظام چلانے کے لئے اس حوالے سے بورڈ آف گورنرز بنائے گئے۔ڈویژن کے کمشنر کو اس بورڈ کاچئیر مین اور ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو اس کاوائس چئیرمین بنایاگیا جبکہ سکول کا پرنسپل اس کا جنرل سیکرٹری ہوتا تھا۔ کمشنر کی مصروفیات کے باعث اکثر اوقات ڈپٹی کمشنر ہی کمشنر کی نمائندگی کرتا اور تمام معاملات بورڈ آف گورنرز کی مشاورت سے طے پاتےرہے۔سردار کوڑے خان پبلک سکول جس کا آغاز ایک پرائمری یا مڈل سکول کے طور پر ہوا تھا بہت سے گرم سرد حالات سہتا ہوا آگے بڑھتا رہا – 1994 ء میں کرنل صابر جب اس کے پرنسپل بنے تو اس سکول میں طلباءکی تعدار بمشکل دو اڑھائی سو تھی۔انہوں نے سکول میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے اور اس کو خود مختیار ادارہ بنا پر محنت کی اور اس کی بنیاد کو اتنا مضبوط کیا کہ لوگوں کا اس کی طرف رحجان ہوا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ سکول تیزی سے ترقی کرنے لگا ۔ مختلف سربراہان کے دور میں بھر پور محنت کے بعد یہ ادارہ ضلع کے تعلیمی میدان میں اپنا منفردمقام بنانے میں کامیاب ہو گیا۔سردار کوڑے خان پبلک سکول پہلے سکینڈری بعدازاں 2001ء میں ہائیر سکینڈری سکول کے درجے پر پہنچ گیااور اس وقت اس سکول میں طلباء کی تعدا پندرہ سو کے لگ بھگ ہو گئی۔ 2005ء میں پروفیسر خورشید نے بطور پرنسپل اس ادارے کا چارج سنبھالا تو اس کے اندر انقلابی تبدیلیاں آئیں کئی نئی عماراتیں بنائی گئیں اور مختلف شعبہ جات کا آغاز کیاگیاساتھ ہی سکول میں نئے سٹاف کی بھرتی کے لئے ایک نیا اور جدید سسٹم متعارف کرایا گیا۔اساتذہ بھی اس سسٹم میں امتحان دے کر اگلے گریڈ میں ترقی کرتے تھے۔ اس دوران ڈیرہ غازی خان تعلیمی بورڈ میں اس سکول نے مسلسل میٹرک اور انٹر میڈیٹ میں نمائیاں نتائج حاصل کیے۔ سکول میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد بھی چار ہزار کے قریب پہنچ گئی۔پروفیسر خورشید تقریبا نو سال پرنسپل رہے اورسکول کو مالی لحاظ سے بھی ایک مستحکم بنیاد فراہم کر گئے۔ان اصلاحات کی وجہ سے ہی آج اس سکول میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد پینتالیس سو سے تجاوز کر چکی ہے۔اس دوران مظفر گڑھ کے ایک سرائیکی قوم پرست رہنما”مظفر خان مگسی ” نے لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں ایک مقدمہ دائر کیا جس میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ سردار کوڑے خان جو جائیداد وقف کر گئے تھےاس کا ضلعی حکومت سے حساب لیا جائے ۔ کوئی تیس سال یہ مقدمہ مختلف عدالتوں میں زیر سماعت رہااور بلآخرسپریم کورٹ نے تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ سنایا کہ سردار کوڑے خان کی ساری جائیداد کوقبضہ گروپوں سے واگزار کراکے اس کا ٹرسٹ بنایا جائے۔سردار کوڑے خان ٹرسٹ کا چئیر مین ڈسٹرکٹ سیشن جج مقرر کیا گیاساتھ ہی سردا کوڑے خان کے نام سے چلنے والے تمام سکولوں کو ٹرسٹ کے تحت چلائےجانےکا فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلہ کے نتیجہ میں سردار کوڑے خان ٹرسٹ قائم ہوا اورسردار کوڑے خان کی جائیداد کی آمدنی جو چند لاکھ روپے تھی تھوڑے ہی عرصے میں چالیس کروڑ سے تجاوز کر گئی۔ اس پہلے 2005ء میں ضلع کونسل نے تمام تحصیل ہیڈ کوارٹر پر بھی سردار کوڑے خان کے نام سے مڈل سکول بنا دئیے گئے تھےجو زیادہ تر سردار کوڑے خان پبلک ہائیر سکینڈری سکول کی طرف سے دئیے گئے قرض اور امداد پر چلتے رہے۔ ٹرسٹ نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سردار کوڑے خان پبلک سکول جتوئی،
سردار کوڑے خان پبلک سکول علی پوراورسردار کوڑے خان پبلک سکول کوٹ ادو کو ٹرسٹ میں لے لیا۔فروری 2019ء میں سردار کوڑے خان ٹرسٹ کےچئیرمین ڈسٹرکٹ سیشن جج صاحب نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو خط لکھا اور سردار کوڑے خان پبلک ہائیر سکینڈری سکول مظفر گڑھ کو ٹرسٹ کے حوالے کرنے کو کہا لیکن ڈپٹی کمشنرمظفرگڑھ نےاس سکول کو ٹرسٹ کے حوالے کرنے کی بجائے سکول میں سے عارضی طور پر رکھے گئے اساتذہ کو نکال دیاتاکہ سکول کی کارکردگی متاثر ہو اور لوگوں کو اس سکول سے شکایت ہوں لیکن اساتذہ نے اپنی فطری محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے اس مسئلے کا سامنا کیا۔سال 2019 کے آغاز میں ڈپٹی کمشنر نےسردار کوڑے خان سکول مظفرگڑھ کو ایک غیر سرکاری تنظیم care foundation کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تو سکول کے اندر اور باہر سے آنے والے شدید ردعمل پر بلآخر انہیں اپنے فیصلہ کو عارضی طور پر ترک کرنا پڑا ۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں جب ڈپٹی کمشنر کا خیال تھا کہ والدین اور اساتذہ گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے سکول کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے ایک منصوبے کے تحت سردار کوڑے خان پبلک سکول مظفرگڑھ کوcare foundation کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیاگیا اور اس پر موقف یہ اپنایا گیاکہ سکول کی گرتی ہوئی تعلیمی حالت کے پیش نظر سکول کو ترقی دینے کے لئے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے ۔ اتفاقا میٹرک سالانہ امتحان 2019 ء کا رزلٹ آیا تو سکول کی ایک طالبہ نےنا صرف ڈیرہ غازی خان تعلیمی بورڈ میں بلکہ پورے صوبہ پنجاب میں پہلی پوزیشن لی۔اس طرح پورے سکول کا رزلٹ بھی پنجاب بھرمیں نمائیاں رہا۔تقریبا 450 بچوں نے میٹرک کا امتحان دیا جس میں سے 45بچوں نے 1050 سے زیادہ نمبر حاصل کیئے ،150 سے زائد بچوں نے 90 فیصد سے سے زیادہ نمبر لے کر A پلس گریڈ حاصل کیا ۔ صرف نو بچے ایسے ہیں جنہیں ایک یا دو مضامین میں سپلی لگی۔ پاس ہونے والے بچوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس نے فرسٹ ڈویژن نہ حاصل کی ہو ۔
ڈپٹی کمشنر کو سوچنا چاہیے یہ کس طرح سے گرتا ہوا تعلیمی معیار ہے جس میں سکول کےامتحانی نتائج کا مقابلہ ضلع بھر کا کوئی ادارہ نہیں کرسکتا ۔
سکول کسی کی امداد پر نہیں چلتاہے بلکہ اس کے بہترین کیمپس ،کوالیفائیڈ اساتذہ کی محنت کی وجہ سے آج سکول کے نام پر بنک میں کروڑوں روپے کے فنڈز موجود ہیں۔پچھلے کئی سالوں سے مسلسل بہترین نتائج کی وجہ سے آج ضلع کےہر بچہ کا خواب ہےکہ وہ سردار کوڑے خان پبلک سکول مظفرگڑھ کا طالب علم بنے۔ڈپٹی کمشنر کواگر اساتذہ سے اور اس سکول کے طلباء سے تھوڑی بہت بھی ہمدردی ہے تو اسے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ٹرسٹ کے حوالے کردیں جو کمی کوتاہی ہو گی وہ ٹرسٹ خود دیکھ لے گا۔اہلیان مظفرگڑھ آج حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس درویش صفت شخص سردار کوڑے خان کی طرف سے اللہ کے نام پر دی گئی اس وسیع جائیدادکی آمدن سے ہی اس بہترین ادارہ کو چلانے کے لئے اس سکول کو سردار کوڑے خان ٹرسٹ کے حوالے کرے۔اس سکول کو care foundation جیسی این جی او کے حوالے کر کے مظفرگڑھ کے اس اعلی درجہ کے تعلیمی ادارے کوبرباد نہ کیا جائے ۔