آب حیات حقیقت میں ہے کہاں ؟ کیا اسے پینے والا تا قیامت زندہ رہتا ہے ؟ تہلکہ خیز انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

0
293

آب حیات حقیقت میں ہے کہاں ؟ کیا اسے پینے والا تا قیامت زندہ رہتا ہے ؟ تہلکہ خیز انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ تاریخ میں ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جنہوں نے پوری نہیں تو آدھی دنیا پرحکومت ضرور کی ہے جن میں سکندر اعظم اور چنگیز خان کا نام سر فہرست ہے لیکن فاتح اعظم اور اس جیسی فکر کے حامل دیگر افراد ایک دن شاہانہ تخت وتاج اور جاہ و جلال چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے۔ لہٰذا فکر انسانی اس طرف مبذول ہوئی کہ موت سے کس طرح چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں جہاں مختلف مذاہب و مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے علم ،عقیدےاور کشف و مجاہدے سے اس خواہش کی تکمیل میں جدوجہد کی۔ وہاں آب حیات کا حصول بھی اولین ترجیح رہا۔آج میں آپکو بتاوں گا کہ آب حیات کی حقیقت کیا ہے؟ ۔ بعض لوگ تو اس کو افسانے کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آبِ حیات کا تذکرہ نہ تو کلام اللہ کی کسی آیت میں ہے اور نہ ہی کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی روایت میں ہے۔۔ ہاں البتہ کچھ مفسرین نے سورہ کہف کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے آبِ حیات کے بارے میں بات کی ہے، جن میں حضرت ذوالقرنین کے سفر کا تذکرہ ہے۔۔ سورۃ کہف کی آیات 61 تا 66 میں ارشاد ہؤا ہے۔ موسٰیؑ کو حکم ہؤا کہ ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ موسٰیؑ نے عرض کی پروردگار میں اس تک کیسے پہنچوں حکم ہؤا جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی ملا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی نمک آلودہ لے لیں۔ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں ہمارا وہ بندہ ملے گا۔۔ چنانچہ جب موسٰیؑ وہ جگہ جہاں روم و فارس آپس میں ملتے ہیں میں ’’نہر حیات‘‘ کے نزدیک پہنچے تو وہیں ایک چٹان کے قریب کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گئے۔ مچھلی آپکے ساتھی یوشع بن نون کی زنبیل میں تھی۔ پانی کے قطرے جیسے ہی اس پر پڑے وہ بحکم خدا زندہ ہو کرپانی میں غوطہ زن ہو گئی اور ایک سوراخ کے ذریعے سرنگ پانی میں اترتی چلی گئی۔ جب حضرت موسٰیؑ یہاں سے روانہ ہو کر کچھ دور گئے تو یوشع سے کہا مجھے بھوک لگی ہے۔ وہ مچھلی لے آؤ۔ یوشع نے کہا وہ مچھلی تو جہاں ہم نے آرام کیا تھا وہیں عجب انداز سے جست لگا کر پانی میں غائب ہو گئی۔ اورآپ کو بتانا مجھے شیطان نے بُھلا دیا۔موسٰیؑ نے کہا پس واپس چلو اسی جگہ کی ہمیں تلاش تھی۔ جب آپ واپس لوٹے تو دیکھا کہ ایک بندہ خدا وہاں بیٹھا ہؤا ہے۔ آپؑ نے بعد از سلام کہا کہ میں موسٰی ہوں بنی اسرائیل کا نبی۔ یہی خدا کا نیک بندہ حضرت خضرؑ تھے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد کی تفصیل عام ہے کہ آپؑ نے حضرت خضرؑ کے ساتھ سفر کیا اور انہوں نے کہا کہ موسٰی جو عمل میں کروں آپ سوال نہیں کریں گے۔ میں اس واقعہ کی تفصیل میں نہیں جاتا ۔ ۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ نہر حیات کے پانی میں خدا نے یہ تاثیر رکھی تھی کہ مردہ مچھلی پر اس پانی کے چھینٹے پڑنے سے وہ بحکم خدا زندہ ہو کر پانی میں غائب ہو گئی جبکہ حضرت خضرؑ تو مقیم وہیں تھے تو کیا آپ اس پانی سے مستفید نہیں ہوئے ہوں گے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔ بیشک جو وہ چاہتا ہےوہی ہوتا ہے۔۔ آب حیات دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آب بقاء آب دوام امرت ہے ۔ آب حیات کے متعلق یہ خاصیت بیان کی جاتی ہے کہ جو اسے پئے گا یا اس میں غسل کرے گا اسے حیات دائمی اور بقائے دوام حاصل ہو جائے گا ۔ یعنی وہ تاقیامت زندہ رہے گا ۔ آب حیات کا تصور بہت قدیم ہے۔ ۔ قبل از اسلام بھی فارسی ادب کی مختلف داستانوں میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں ایک داستان آشیل (اخیلس) کی ہے۔۔ بعد از اسلام بھی آب حیات کا ذکر موجود ہے۔ اس دور کی داستانوں میں تین اشخاص کا ذکر کیا گیا ہے جو آب حیات یا نہرحیات تک پہنچے ان میں حضرت خضرؑ، حضرت الیاسؑ اور حضرت ذوالقرنینؑ شامل ہیں۔ مذکورہ داستانوں کے بیان کے مطابق آب حیات حضرت خضرؑ اور حضرت الیاسؑ کو نصیب ہوا اور یوں وہ حیات دائمی کے حامل ہو گئے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرناحضرت خضر کے ذمہ ہے اور اِلیاس علیہ السلام کی خشکی میں۔ ۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنینؑ کے خالہ زاد بھائی، وزیراورعلمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ مختلف تواریخ میں یہ بیان ملتا ہے کہ حضرت ذوالقرنینؑ نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوحؑ کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنینؑ نے اس کی تلاش میں مغرب کا سفر کیا۔ حضرت ذوالقرنینؑ کے علم میں یہ بات آئی کہ چشمہ حیوان اندھیرے راستوں میں موجود ہے، جسے آج سائنس ’ بلیک ہول‘ کہتی ہے اور وہاں تین سو ساٹھ چشمے ہیں لہٰذا ذوالقرنینؑ نے اپنے لشکر سے تین سو ساٹھ افراد منتخب کئے اور ہر ایک کو ایک، ایک مچھلی دے کر خضرؑ کی سربراہی میں روانہ کیا ۔ تمام لوگوں کو یہ ہدایات دی گئیں کہ ہر فرد اپنی مچھلی کے ساتھ چشمے میں اتر جائے اور واپس آکر اپنی،اپنی مچھلی ظاہر کرے ۔ کافی دشواری و محنت کے بعد آخر کار یہ افراد ان چشموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جب واپس آئے تو حضرت ذوالقرنینؑ نے کہا کہ سب اپنی مچھلی جمع کرادیں۔ چنانچہ سب نے اپنی مچھلی ان کے سامنے پیش کردی سوائے حضرت خضرؑ کے۔ ذوالقرنینؑ نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا میں جب چشمے میں اترا تو مچھلی میرے ہاتھ سے نکل کر پانی میں چلی گئی۔ میں نے غوطہ لگا کر اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ حضرت ذوالقرنینؑ نے کہا کہ وہ پانی آپ کے مقدر میں تھا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ۔ حضرت خضرؑ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ”خضر” کہنے لگے۔آپ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور آپ کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔۔ اسی طرح تفسیر خازن میں ہے کہ ۔اکثر عُلَماء اس پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں ۔۔ شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں۔۔ تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے۔ اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت بھی فرمائی تھی۔ کہ اے عمر! رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن کیونکہ جس کا ظاہر اور باطن مساوی نہ ہو تو منافق ہوتا ہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے ۔یہ سن کر عمربن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تک روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہو گئی ۔ ۔ جبکہ تفسیر صاوی کے مطابق حضرت ذوالقرنینؑ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ ۔ تفسیر ابن کثیر میں بھی ازراقی کے حوالے سے یہ روایت ملتی ہے کہ ذوالقرنینؑ حضرت ابراہیؑم کے دور میں تھے اور انہوں نے ابراہیؑم کے ہمراہ خانہ کعبہ کا طواف بھی کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خضرؑ بھی ابراہیؑم کے دور کے ہیں۔۔ جبکہ ایک محتاط اندازے کے تحت حضرت ابراہیؑم اور حضرت موسٰیؑ کے درمیان 600 سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ ان تمام حوالہ جات سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ حضرت خضرؑکو یا توعمر طولانی دی گئی تھی یا پھر وہ بحکم خدا بقید حیات ہیں۔ واللہ اعلم۔

Leave a reply