اللہ کریم نے آپ کو عزت دی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی محنت سے زیادہ اس رب کا آپ پہ کرم ہے۔
سو اسی ودود کی محبتوں کو سمیٹتے ہوئے مخلوق خدا کو بھی اسی عزت سے نوازیں جس کے آپ خود کو حقدار سمجھتے ہیں۔
اگر آپ کسی کو عزت نہیں دے سکتے تو آپ کو کسی کی بھی عزت نفس سے کھیلنے کا حق حاصل نہیں ہے۔جیسے آپ اپنی فیلڈ کے شاہ سوار ہیں،ہو سکتا ہے سامنے والا اپنی فیلڈ میں آپ کی توقع سے بڑھ کر کامیاب ہو!!!!
اپنی نظر سے دنیا کو مت دیکھیں۔اپ کا نظریہ آپکی رائے آپکا جمہوری حق ضرور ہے مگر ضروری نہیں درست بھی ہو!!!
دنیا کو اس نظر سے بھی مت دیکھیں کہ جس نظر سے دنیا اپکو دیکھے گی تو اپکو برا لگے گا۔

مجھے قلم کے میدان میں لکھتے، سیکھتے دو دہائیاں ہو گئی ہیں۔۔۔۔میں نیشنل جرنلسٹ بھی ہوں۔یہ مقام میں نے بہت رگڑے کھانے،زندگی کی بہت سی ماریں کھا کر حاصل کیا ہے۔صرف میں وہ تکلیف سمجھ سکتی ہوں جو کسی لڑکی کو اک محدود ماحول میں سہنا پڑی ،اک ایسے چھوٹے علاقے میں جہاں مردانہ راج ہے،جہاں میٹریکولیٹ صحافت ہے،جہاں تھانے کچہری کی سیاست ہی صحافت ہے،جہاں پولیس کے اک کانسٹیبل کے ساتھ اک تصویر ہی ڈی پی کا فخر سمجھی جاتی ہے،جہاں انتظامیہ سے تعلقات ہی سرمایہ سمجھے جاتے ہیں،جہاں کورٹ کچہری سے بھی زیادہ کیسز میٹرک پاس انتظامیہ کا سر چڑھا لفافہ "صوحافی” دونوں طرف سے پیسے بٹور کر حل کرلیتا ہے،اور ایمانداری سے اپنا حصہ نکال کر باقیوں کا تقسیم کرتا ہے۔۔۔جہاں کی رپورٹنگ قل خوانی،ککڑ کڑاہیاں،فاتحہ جنازہ،ولیمے کی تصاویر لگا کے ساتھ "سنئیر جرنلسٹ کی فلاں ولیمے میں شرکت” کے کیپشن کے ساتھ کی جاتی ہے۔۔۔۔

وہاں سات سال باقاعدہ اک میڈیا گروپ آفس میں رہنا اور تن تنہا ہزاروں مخالفتیں سہہ کر بھی شفاف صحافت جاری رکھنا اک عورت کے لیے کتنا مشکل تھا۔۔۔۔
صرف میں جان سکتی ہوں۔۔۔۔آپ نہیں!!!
سو آپ کو میرے بارے بنا جانے رائے دینے کا حق بھی نہیں!
حق سچ پہ کالمز لکھنے پہ اغوا میں ہوئی تھی،اپ نہیں
سو آپ کو حقیقت جاننی چاہیے
حق لکھنے،حق کے ساتھ کھڑے ہونے اور سیاسی شخصیات کا نام لے کر کالم لکھنے والی اس لڑکی جسے اسی پاداش میں ایک ہی ہفتے میں مسلسل سات بار ایکسیڈنٹ کے زریعے مارنے کی کوشش کی گئی ،میں ہوں۔۔۔میں نمرہ ملک۔۔۔
اور اس بات کے دوستوں کے ساتھ دشمن بھی گواہ ہیں۔۔۔۔میری زبان تک کٹ گئی تھی۔۔۔۔لیکن قلم نے ہار نہیں مانی تھی۔۔۔( اس حوالے سے کسی کو بھی شک ہو تو وہ پریس فورم میڈیا گروپ کے چیف ایگزیکٹو ریاض انجم سمیت کسی بھی زمہ دار شخص سے تصدیق کر سکتا ہے)
مجھے یہ نو سو کے قریب شیلڈز، قومی و سرکاری اعزازات،سوموٹو اور پندرہ کتب کا خالق ہو جانا کسی سیاسی پارٹی کی چاپلوسی کی وجہ سے نہیں ملے۔۔۔۔۔اگر ملتے اور مجھے کھاؤ اور کھلاؤ پالیسی آ جاتی تو آج میں صحافتی پابندیوں کی زد میں نہ ہوتی۔۔۔۔
یہ مجھے میرے قلم کی کمائی سے ملے ہیں۔وہ قلم جسے میں نے چوری چوری استعمال کرنا شروع کیا تھا،اور پھر وقت نےاسی قلم کی بدولت مجھے اس دور کے سب سے بڑے میڈیا میں لا کھڑا کیا!!!
سچ کہوں ناں تو یہ مجھ سے بھی زیادہ میرے والدین کا قصور ہے جنہوں نے حرام نہیں کھلایا اور نہ کھانے کی ترغیب دی،ورنہ میں بھی رچ بس جاتی،مس فٹ نہ ہوتی!!!

جب آپ لوکل سطح پہ سالوں اک میڈیا گروپ کو رن کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں تو خود بہ خود نظروں میں رہتے ہیں، کہیں آپ کی بے حد عزت کی جاتی ہے تو کہیں آپ کے پیٹھ پیچھے برائیاں ،کردار کشی اور پاؤں کے نیچے زمین کھینچ لینے کی بھرپور کوشش کی جاتی یے۔۔۔
مجھے بھی یہ سب دیکھنا پڑا!!!دیکھتی آئی ہوں اور اب بھی دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔

جہاں میری کامیابیوں سے تعصب زدہ معاشرے میں تکلیف دہ حالات نے مجھے ہر موڑ پہ آزمایا وہاں میرے علاقے کا۔۔۔۔میں دہراتی ہوں۔۔۔۔۔
میرے اپنے علاقے کا
میرے تلہ گنگ چکوال پنڈی ڈویژن کا ہر وہ شخص جو میری قلمی فتوحات کو سمجھتا ہے وہ مجھے بہت محبت اور عزت دیتا ہے۔کیونکہ میں نے جب جب لکھا،عام آدمی کے لیے لکھا
ٹوٹی سڑکیں کھڈے بنیں تو قلمکار نے ٹوٹے ہوئے قلم کو تلوار بنایا۔۔۔
تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن کی بات آئی تو قلم نے بھرپور آواز اٹھائی،جہاں کہیں کسی کو ضرورت پڑی،قلمکار نے اپنا ہنر بیچا نہیں ،آزمایا اور فتح پائی ۔۔۔۔
وہ ٹرانسپورٹ والے ہوں
وہ عام دکاندار ہوں ،مجھے عزت دیتے ہیں،میرے لیے سیٹ خالی چھوڑ دیتے ہیں،کیونکہ یہ ہی میرے قلم کی کل خرید ہے،کل سرمایہ ہے،کل کائنات ہے!!!
وہ سٹی ہاسپٹل کا ٹراما سینٹر ہو یا سٹاف۔۔۔
وہ بائی پاس کے سٹے ہوں یا روڈز
وہ ملکی و قومی نمائندگی ہو یا علاقے کی ترجمانی۔۔۔۔
وہ صحافت ہو ناول نگاری۔۔۔میں نے اپنی طرف سے جو حق ادا کرنے کی کوشش کی سو کی،لیکن میرے عام لوگوں نے مجھے بے حد عزت دی ہے
اور جب عام آدمی آپ کو عزت دینے لگ جائے تو آپ سمجھ جائیں ،آپ کا ایلیٹ طبقہ جتنا مرضی آپ کے خلاف ہو،حق کا ساتھ ہمیشہ چھوٹے لوگ دیتے ہیں۔
جب میری کسی پزیرائی پہ مجھے طنزا کہا جائے کہ”تم کیا کوئی وزیراعظم لگی ہوئی ہو؟؟؟ جو تمہیں لوگ پروٹوکول دیں،” تومجھے ان لفظوں سے تکلیف ضرور ہوتی یے۔لیکن یہ احساس بھی ساتھ رہتا ہے کہ سامنے والے نے وہ دکھ،وہ تکلیف نہیں دیکھی جو بحثیت اک خاتون صحافی کے میں نے دیکھی ہے۔سو جب کوئی میرے قلم کی بدولت مجھے عزت دیتا ہے تو مجھے وہ انسلٹ یاد نہیں رہتی جو کسی تعصب یا بنا کچھ جانے کسی کے لفظوں سے محسوس ہوتی ہے۔مجھے وہ محبتیں یاد رہتی ہیں،وہ دعائیں یاد رہتی ہیں جو میں نے کہیں نہ کہیں اپنے لوگوں کے لیے آواز بلند کر کے بلا معاوضہ اپنے نام کی ہیں۔
"چھوٹے لوگوں کے لیے بڑی باتیں مت کرنا شروع کر دیا کرو” کہنے والو!!!
میں نمرہ ملک وزیراعظم نہیں ہوں،بہت چھوٹے قد کی چھوٹی سی قلمکار ہوں مگر مجھے فخر ہے کہ میں بہت سے چھوٹے لوگوں کی بڑی محبتوں کی آمین ہوں ۔

Shares: