دنیا کے چند ممالک ایسے ہیں جن کے جمہوری ڈھانچے آئینی تحفظات اور سول آزادیوں کی روشنی میں انہیں بہترین جمہوری ممالک کے طور پر اکثر سراہا جاتا ہے۔ ناروے، سویڈن، ڈنمارک، یورپی ممالک سمیت امریکہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، فرانس، سوئٹزرلینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح پاکستان نے 1947 کے بعد انڈیا ایکٹ 1935 عارضی آئین کے طور پر اپنایا۔ 1956 میں پہلا تحریری آئین آیا لیکن 1958 میں مارشل لگا اور آئین منسوخ کر دیا گیا۔ 1962 میں جنرل ایوب خان نے نیا آئین دیا جو صدارتی نظام پر مبنی تھا۔ پھر ممتاز عوامی لیڈر مسٹر بھٹو نے پارلیمانی جمہوری آئین بنایا جس کو 73 کا آئین کہا جاتا ہے۔ یہ آئین ایک پارٹی کا نہیں بلکہ تمام جماعتوں کا مشترکہ معاہدہ تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان، جے یو پی، ان سب نے مل کر 1973 کے آئین پر دستخط کیے۔ پھر 1977 اور 1988 ضیاء الحق مرحوم کے دور میں 1985 کو آٹھویں ترمیم کی گئی صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیا گیا آرٹیکل 58 ٹو بی پھر آئین کا توازن بگڑ گیا۔ پھر محترمہ بینطیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار 1988 ،تا 1999 میں سیاسی کشمکش کے باعث پارلیمانی نظام کمزور رہا صدر کا استعمال بار بار ہوا۔ پھر جنرل مشرف مرحوم کے دور 1999 میں 2008 ، 17ویں ترمیم 2003 صدارتی اختیارات بحال کیے گئے۔ پھر جمہوریت کی بحالی کے بعد اٹھارویں ترمیم 2010 صوبائی خود مختاری بحال کی گئی۔ صدر کے اختیارات کم اور پارلیمنٹ کے زیادہ، جنرل ضیاء الحق مرحوم اور مشرف مرحوم کے ادوار میں کی گئی تبدیلیوں کا توازن درست کیا گیا۔
1973 کا عظیم آئین درجنوں ترامیم کی وجہ سے اس کا اصل ڈھانچہ پیچیدہ ہو گیا۔ تاہم اس آئین کے بنیادی اصول اسلام، وفاق، جمہوریت، آزادی، مساوات، سماجی انصاف اب بھی وہی ہیں جو 1973 کے آئین میں طے ہوئے تھے۔ 1973 کا آئین دراصل پاکستان کی قوم، سیاست اور مذہب کے درمیان ایک تاریخی مفاہمت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آئیں مگر اس آئین کی روح اب بھی اتحاد اور جمہوریت کی علامت ہے۔ اب ایک بار پھر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد 27ویں آئینی ترمیم پر بحث جاری ہے۔ پیپلزپارٹی نے فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ صوبائی خود مختاری پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ اس شق کے حق میں ووٹ نہیں دیا جائے گا دوسری کئی شقوں کے علاوہ مجسٹریٹی نظام کو بھی ووٹ نہیں دیا جائے گا۔ مجسٹریٹی نظام دراصل نوآبادیاتی دور کی ایک انتظامی وراثت ہے۔ جب انتظامیہ ہی عدلیہ کا کردار ادا کرے تو انصاف غیر جانبدار نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر ایک ہی انتظامی افسر پولیس کی تفتیش کی نگرانی بھی کرے اور سزا بھی دے تو انصاف کیسے غیر جانبدار ہوگا؟ آئینی ماہرین کے مطابق آئین کے آرٹیکل 175 عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کرتا ہے۔ مجسٹریٹی نظام میں عوامی نمائندے کمزور اور بیوروکریسی طاقتور ہو جاتی ہے بہتر راستہ یہ ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ کی مکمل علیحدگی برقرار رکھی جائے۔ جوڈیشل نظام کو مضبوط کیا جائے نہ کہ انتظامیہ کو عدالتی کردار دیا جائے۔ پیپلز پارٹی آرٹیکل 243 کی حمایت کرے گی۔ پارلیمنٹ میں جو موجود ارکان اسمبلی یاد رکھیں جمہوریت کی بنیاد صرف پارلیمنٹ، قانون یا اقتدار نہیں بلکہ وہ اعتماد اور خدمت ہے جو عوام اور ان کے نمائندوں کے درمیان قائم ہو۔ عوام کے بنیادی مسائل روزگار، تعلیم، صحت، انصاف پر توجہ دے۔ اگر پارلیمنٹ صرف اقتدار کی سیاست میں مصروف رہے اور عوامی مشکلات نظر انداز ہوں تو جمہوریت ایک نظام نہیں بلکہ ایک نعرہ بن کر رہ جاتی ہے۔








