سپریم کورٹ میں 26 ویں ترمیم کیس کے دوران جسٹس محمد علی نے کہا کہ آئینی بینچ کیسے فل کورٹ بناسکتا ہے کیونکہ اب صورتحال مختلف ہے۔

سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کےخلاف درخواستوں پر سماعت 8 رکنی آئینی بینچ نے کی۔،دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا فل کورٹ تشکیل دینے میں کوئی رکاوٹ ہے؟ جسٹس محمد علی نے کہا کیا موجودہ 8 رکنی بینچ فُل کورٹ تشکیل دینے کا دائرہ اختیار رکھتاہے؟ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا موجودہ بینچ ریگولر ہے یا آئینی،کیس کون سنےگا؟ موجودہ بینچ فیصلہ کرسکتا ہے۔جسٹس محمد علی نے کہاکہ اگر ہم جوڈیشل آرڈرجاری کریں تو آپ ایڈمنسٹریٹو آرڈر کہیں گے؟کیا ایسے آرٹیکل 191 اے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟،وکیل منیر اے ملک نےکہا کہ کوئی خلاف ورزی نہیں ہوگی، آئینی بینچ کے پاس جوڈیشل اختیارات ہیں۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ ہم تو آئین و قانون کے مطابق مقدمات سن رہے ہیں، ہمیں ترمیم سے کیا فائدہ ہوا ہم نے الٹا گالیاں بھی بہت کھائی ہیں،

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں آئینی بینچ جوڈیشل اختیارات کا استعمال کرکے فل کورٹ تشکیل دے؟ عدالت نے کئی بار ترمیم کےبجائے آئین پر انحصار کیا ہے۔جسٹس محمد علی نے کہا آرٹیکل191اے موجود ہے، بتائیں آئینی بینچ کیسےفُل کورٹ تشکیل دے سکتا ہے؟کیونکہ اب صورتحال مختلف ہے۔وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ فُل کورٹ کےلیے موجودہ بینچ کی جانب سے ڈائریکشن دیےجانےکی استدعا ہے، سپریم کورٹ کے اندر آئینی بینچ قائم ہے، سپریم کورٹ کےتمام ججز پر مبنی بینچ درخواستوں پر سماعت کرے۔

ایڈوکیٹ منیر اے ملک نے اپنے دلائل مکمل کر لئیے ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ہم سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل آئینی بنچ بنانے کا کہہ دیں تو کیا آپکو منظور ہو گا،ایڈوکیٹ منیر اے ملک نے کہا کہ اگر چھبیسویں آئینی ترمیم سے پہلے والے ججوں پر مشتمل فل کورٹ بناتے ہیں تو مجھے قبول ہو گا،

چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت 13 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ،سپریم کورٹ بار کے سابق چھ صدور کے وکیل عابد زبیری دلائل دیں گے

Shares: