اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی وحشت ناک بمباری سے ہونے والی تباہی سے انسانیت کا جذبہ رکھنے والے غیر مسلم بھی سراپا احتجاج ہیں مگر خاموش ہیں تو صرف مسلم ممالک کے حکمران اور افواج جو انتہائی قابل ہیں،امت مسلمہ اور ایٹمی پاکستان کے حکمران عوام کو جوابدہ ہیں کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی فلسطینی مظلوم بہن بھائیوں کی مدد کیوں نہ کی گئی غزہ جل گیا رفحہ جل گیا مگر امت مسلمہ کے حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کی جا رحیت کے خلاف ایک دھمکی آمیز ٹویٹ تک بھی نہ آیا ،یہ وہی خاموشی ہے جس کے متعلق قران کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا” اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں عورتوں اور بچوں کی مدد کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال دے جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنی طرف سے کوئی حمایتی عطا فرما اور ہمیں اپنی طرف سے مددگار عطا فرما ( سورۃ نساء 75) .اور آج بھی فلسطین کے مظلوم پکار رہے ہیں یہ بات ناقابل فراموش ہے کہ 57 ممالک کی خاموشی ایک طرف اور پاکستان ایک طرف ہے کیونکہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت رکھتا ہے مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اہل غزہ کی مدد کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی جا رہی ہے.
یوں تو اسرائیلی جارحیت گزشتہ 80 برس سے جاری ہے مگر گزشتہ 18 ماہ سے تباہی دیکھنے میں جو آرہی ہے ان کا بیان کرنا مشکل ہے جن میں سے ایک ایسی ہی رات جس کی ہولناکی الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی، محض ایک رات میں 100 سے زائد بچے شہید کر دیے گئے ایسے بچے بھی دفنائے گئے جن کے سر دھڑ سے الگ تھے ،معصوم پھولوں کے لاشے بم کی شدت سے ہوا میں اڑے اور پھر زمین پر آ گرے، کل بچوں کی تعداد 18 ہزار بتائی جاتی ہے جو اسرائیلی اور امریکی مشترکہ بمباری کا لقمہ اجل بنے، جنگ کے بھی کچھ قوانین ہوا کرتے ہیں مگر اسرائیل تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کھلے عام کر رہا ہے کیا اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے کہاں ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں؟ کہاں ہیں اقوام متحدہ کے امن سفیر ؟کہاں ہیں وہ لبرل تنظیمیں جو حقوق برابری کا ڈھونگ رچائے پھرتی ہیں. اسرائیل نے عالمی قوانین کو پاؤں تلے روند ڈالا ہے انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ سلامتی کونسل ،سارے امریکہ اور اسرائیل کی ذیلی تنظیمیں ہیں. اس لیے ان کی خاموشی پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ،کوئی ملال نہیں ، یہ سب دیکھنے کے بعد خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے شہید مفتی منیر شاکر کی بات درست ثابت ہوتی ہے کہ” تم میں سے کوئی مسلمان نہیں” واقعی سب مسلمانوں کی اصلیت کھل کر سامنے آچکی ہے اور ثابت ہو گیا کہ آج کے مسلمان غیرت ایمانی سے خالی ہیں.
ڈائریکٹر غزہ ڈاکٹر منیر البریش کا ٹویٹ” غزہ آخری سانسیں لے رہا ہے تمہارا بہت انتظار کیا اللہ حافظ” تمام نام نہاد مسلمانوں کے منہ پرطمانچہ ہے. کیا قدرت اس مجرمانہ خاموشی پر ہمیں معاف کر دے گی یا کسی دن ہمارا بھی یہی حال ہوگا اور باقی سب خاموش رہیں گے، ایسی خاموشی کے متعلق مشہور فلاسفر کا کہنا ہے "اگر کہیں پر ظلم ہو رہا ہو اور مجھے موقع ملے تھوکنے کا تو میں خاموش رہنے والوں کے منہ پر تھوکوں گا ظالموں کے منہ پر نہیں” (چی گویرا) ۔ اسلام بے شک امن کا درس دیتا ہے مگر ہم جہاد سے انکار نہیں کر سکتے. نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک جسم قرار دیا اور فرمایا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کا ایک حصہ کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو دوسرا اس کو محسوس کرتا ہے یعنی جب جہاں کہیں بھی مسلمانوںپر ظلم حد سے تجاوز کر جائے تو جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے جید مفتیان کرام کا جہاد کے لئے فتوی دینا خوش آئند ہے مگر ہماری تمام علماء کرام سے گزارش ہے کہ پاکستانی وزیراعظم اور سپہ سالار جو کہ جدید اسلحہ اور ایٹمی طاقت کے حامل ہیں ان سے اس حوالے سے مشترکہ بیانیہ جاری کرنے کا مطالبہ کریں. اس سب کے علاوہ یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ اکثر سوشل میڈیا کے صارفین جو اپنے اکاؤنٹس بلاک ہو جانے کے ڈر سے خاموش دکھائی دیتے تھے یکدم بیدار ہوئے ہیں اور متواتر مایوسی پھیلا رہے ہیں، یاد رکھیں اہل غزہ نے جس بہادری، صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا وہ باعث فخر ہے اور انہوں نے دشمنوں کے آگے سر جھکانے سے انکار کیا اس لیے سوشل میڈیا کے نادان غازی اہل غزہ کے متعلق مایوسی کی فضا قائم کرنے سے گریز کریں کیونکہ مایوسی گناہ ہے اور حالت جنگ میں مایوسی پھیلانا زہر قاتل ہے. فلسطینی صحافی خلیل ابو الیاس ڈاکٹر منیر اور ہماری دیگر فلسطینی بہنوں کے فیس بک اور ٹویٹر پر انے والے بھی ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ باطل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکے ہیں بلکہ ان کے بیانات کا مقصد یہ ہے کہ شاید اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں غیرت ایمانی جاگ اٹھے۔جیسا کہ ایک فلسطینی بہن نے لکھا "ہماری خبریں اب سے تمہیں پریشان نہیں کریں گی یہ صرف چند دنوں کی بات ہے اور پھر سب ختم ہو جائیں گے اللہ اس کو ہرگز معاف نہ کرے جو ہمارے ظلم پر خاموش رہا”. یہ بیان سوئے ہوئے مسلمانوں کی غیرت جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے اور اس سے بڑھ کر یہ سوچنا چاہیے کہ اس بہن نے کیا لکھا ہے کہ اللہ اس کو ہرگز معاف نہ کرے جو ہمارے ظلم پر خاموش رہا اب اس بات پر غور کرنی چاہیے کہ عام عوام کیا کر رہے ہیں محض دعاؤں پر استفادہ کرنے والے حضرات اور صرف یہ بات کہہ دینے والے لوگ کہ ہم تو عام لوگ ہیں،ہم کیا کر سکتے ہیں یہ تو حکمرانوں کا کام ہے ہم صرف دعا کر سکتے ہیں ایسے چند بہانے بنا کر خود کو بری الزمہ تصور کر لینا سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔درحقیقت ہم عام شہری بھی معاشی ضروریات کے پیچھے اس طرح سے لگے ہوئے ہیں کہ روٹی کپڑا اور اعلی آسائشیں ہی ہماری اولین ترجیح ہے آج کے مسلمان کو اپنے سٹیٹس کی فکر لگی رہتی ہے اسی وجہ سے ہم بھی بزدلی کے اعلی مقام تک پہنچ چکے ہیں۔جب کہ ہم عام شہری ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں اس بات کا جواب یہ ہے کہ جو متحد ہو کر اپنے موجودہ حکومت سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ آپ فلسطین کی مدد کے لیے کیوں نہیں جا رہے ہیں ان کی خاموشی پر ہماری خاموشی اور محض یہ کہہ دینا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں ہمیں بھی مجرم بنا رہی ہے۔کرنا یہ ہے کہ ہم سب کو یکجا ہو کر آواز اٹھانی ہے اور وزیراعظم سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ تمام تر وسائل کے باوجود پاکستان فلسطین کی مدد کے لیے کیوں نہیں جا رہا ہے ، ہمیں ذاتی طور پر بھی اسرائیلی تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے اور ہمیں حکومت پاکستان سے اس چیز کا بھی پرزور مطالبہ کرنا چاہیے کہ اسرائیلی تمام مصنوعات کی خرید و فروخت پر پاکستان میں مکمل طور پر پابندی عائد کی جائے آخر اسرائیلی مصنوعات جس کی اجازت سے پاکستان میں خریدی اور بیچی جا رہی ہیں اس اسرائیل کے ساتھ تمام کاروباری معاملات ختم کرنے چاہیے اس طرح ہم دشمن کی معیشت کو تباہ کر سکتے ہیں یہ وہ مطالبات ہیں جو ہم عام شہری ہم عام عوام کو متحد ہو کر اپنے موجودہ حکمرانوں سے کرنے چاہیے۔ہم شہری ہیں ہم طاقت نہیں رکھتے ہیں اس بات کی آڑ میں چھپے رہنا نہایت بزدلانا عمل ہے۔
حضرت ثوہان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "قریب ہے کہ قوم تم پر اس طرح ٹوٹ پڑے جیسے کھانے والے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا اس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم اس وقت بہت زیادہ ہو گے لیکن سمندر کی جھاگ کی مانند ہو گے، اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا. پوچھا گیا یا رسول اللہ وہن کیا ہے؟ آپ نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت کا ڈر (سنن ابی داؤد 4297 صحیح). اور یہی حال آج ہمارا ہے، ہمیں اس وقت باقی اسلامی ممالک کا چھوڑ کر خود اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے ہم تعداد میں بہت زیادہ ہیں پاکستانی 25 کروڑ عوام اپنے حکمران اور سپہ سالار کو کیوں مجبور نہیں کر سکتی، دعائیں کرنا اپنی جگہ ضروری ہے مگر اس معاملے میں عملی طور پر متحد ہونا زیادہ ضروری ہے . لہذا اس بہانے سے خود کو تسلی دینا بند کریں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، اس چیز کا اسلام میں کوئی تصور نہیں قران پاک میں ذکر ہے "نکل کھڑے ہو خواہ ہلکے ہو یا بھاری اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو (سورت توبہ 41). ہمیں فریضہ جہاد کی علمی، عملی، ذہنی ،بدنی انفرادی اور اجتماعی تربیت کی تیاری کرنی چاہیے، دنیا کی لذتوں میں مد ہوش مسلمان ہوش میں آئیں، یاد رکھیں،موسی کی قوم نے ظالموں سے لڑنے سے انکار کیا کہ وہ بہت طاقتور ہیں تم اور تمہارا خدا ہی جا کر لڑو پھر اللہ نے ان پر ذلت اور رسوائی مسلط کر دی ،غزہ نے عزت، حریت اور شہادت کو ترجیح دی اور ایمان پر ثابت قدم رہے ہم کیا کر رہے ہیں؟اہل غزہ کو ہمارے آنسوؤں کی ضرورت نہیں، ذرا سوچیں روز محشر جب فلسطین کے مظلوم اور شہیدوں کے متعلق باز پرسی ہوگی تو ہم کیا جواب دیں گے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کیسے کریں گے، ابھی بھی وقت ہے غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں ورنہ یاد رکھیں "اللہ کی پکڑ بہت مضبوط ہے” (القران)، یاد رکھیں غزہ ختم نہیں ہوا غزہ ایک تاریخ لکھ چکا ہے جسے وقت کی گردش بھی مٹا نہیں سکتی مگر اس ڈھال کے سائے میں چین کے نیند سونے والوں کو اپنے انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ جب دیوار گر جائے تو جھونپڑیاں زیادہ دیر قائم نہیں رہتی ہیں، مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے متحد ہو کر نکلیں اور پرزور مطالبہ کریں کہ فلسطین کی مدد کے لیے عملی طور پر جلد از جلد حکمت عملی کا اعلان کیا جائے۔ان مطالبات کے ذریعے ہم عام عوام حکومت پاکستان کو فلسطین کی حمایت میں متحرک کر سکتے ہیں تاکہ روز محشر ہم اپنے رب سے کہہ سکیں کہ اے اللہ ہم نے کوشش کی۔