یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں ہر حادثہ اپنے ساتھ ایک اور سانحہ لاتا ہے اور وہ ذمہ داروں کی بے حسی اور انسانیت سے عاری ردعمل ہوتا ہے۔ کسی بھی سانحے کی پہلی چیخ سڑک پر گونجتی ہے۔ دوسری سوشل میڈیا پر اور تیسری کسی پریس ریلیز میں دب کر رہ جاتی ہے۔ باقی سب ایک ایسی خاموشی میں گم ہو جاتا ہے جسے ہم ’’قومی مزاج‘‘ کا نام دے کر خود کو تسلی دے دیتے ہیں۔ جیسے ہم نے اجتماعی طور پر یہ طے کر لیا ہو کہ مسئلہ حل کرنے سے بہتر ہے کہ وقت کے ڈھیر تلے دبا دیا جائے اگر بدبو اٹھے بھی تو ناک پر ہاتھ رکھ کر گزر جائیں مگر کچھ بدبوئیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف ناک نہیں، روح کو بھی جلا دیتی ہیں اورجب روح جلتی ہے تو سوال اٹھتے ہیں جس کا جواب یوں ملتا ہے کہ اب میں ڈھکن کہاں کہاں لگائوں ؟

کراچی کے دل گلشن اقبال میں تین سالہ بچے کا کھلے گٹر میں گر جانا ایسا ہی حادثہ تھا۔ منظر کوئی ڈرامائی نہیں بلکہ روز مرہ کی حقیقت ہے۔ چیخ اٹھتی ہے، لوگ بھاگتے ہیں، کالیں کی جاتی ہیں مگر پھر شہر کی پوری انتظامی مشینری ایک اندھی تلاش میں گھومتی رہتی ہے کہ تاریک سرنگ میں ہاتھ پیر مارتے ہوئے پندرہ گھنٹے گزرنے کے بعد اس بچے کی لاش کئی سو میٹر دور ایک دوسرے کھلے مین ہول سے خاکروب نکالتا ہے جسے شاباش نہیں الٹا ہتک آمیز رویہ تحفے میں ملتا ہے جیسے کوئی گناہ کر دیا ہو۔ دکھ اپنی جگہ، ملال اپنی جگہ، مگر خوف اس بات کا ہے کہ یہ المناکیاں ہمیں اب حیران بھی نہیں کرتیں ؟ جیسے ہم نے شہر کی بدنظمی کے ساتھ ایک خاموش معاہدہ کر لیا ہو کہ ’’تم بے حس رہو، ہم صبر کرتے رہیں گے۔‘‘ریسکیو ادارے صاف کہتے ہیں کہ وہ بلائنڈ آپریشن کرتے ہیں۔ یعنی شہر کی نالیاں آج بھی کسی پراسرار غار کے نقشے کی طرح ہیں جنہیں شاید بنانے والوں نے بھی کبھی مکمل نہیں دیکھا۔ برسوں کے سیاسی جوڑ توڑ نے نالوں کا ایسا تھیلا بنا دیا ہے جسے محکمے خود کھولنے سے گھبراتے ہیں۔ اوپر سے حکم کہ رات کو سرچ کرنا ممنوع ہے۔ یعنی کہ شہر رات میں حادثے کرے مگر ادارے صبح کے سورج کے بغیر آنکھ نہیں کھول سکتے۔

بالفرض کھل بھی گئی تو بیانات کا سیلاب اور عمل کی قحط سالی کے سواکچھ نہیں ملتا۔ یہ درد کے لمحے پہلے ہی طویل تھے ہی کہ ایک اور دلخراش واقعے نے کہانی کا رخ موڑ دیا جب اسلام آباد کی ایک سجی ہوئی سڑک پر، ایک جج صاحب کا سولہ سالہ شہزادہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گاڑی میں مستیاں کرتے ہوئے دو نوجوان لڑکیوں کو سکوٹی سمیت کچل گیا۔ ایک لمحہ، ذرا سی بے احتیاطی اور دو گھر ہمیشہ کے لیے لاوارث ہوگئے۔ مگر ہمارے پاس پھر وہی روایتی ہلچل، وہی کاغذی کارروائیاں، سیاسی اور قانونی بحثیں اور پھر وہی سوال جو ہر شہری کی آنکھ میں ٹھہر گیا ہے کہ اس بار بھی انصاف طاقتور کے جوتے کے نیچے دب جائے گا؟ کیونکہ یہاں جرم کا تعین عدالت نہیں بلکہ جیب اور عہدہ کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں گٹر کا ڈھانچہ ضروری نہیں رہابلکہ پورا نظام اب اصلاح چاہتا ہے تاکہ طاقتوروں کی غلطیاں واقعات اور کمزوروں کی لغزشیں جرائم نہ کہلائیں۔

ایسے کڑے حالات میں ریاستی ترجیحات مزید سوالات کو جنم دیتی ہیں کہ عوام کا ذکر روزمرہ ایجنڈے میں تو دور کی بات کسی ضمنی خانے میں بھی نہیں ملتا۔ ہر روز کوئی نئی خبر ملتی ہے کہ فلاں سیاسی رہنما کا سیل بدل دیا گیا، فلاں کے بیان کو مبینہ طور پر اے آئی کے ذریعے مسخ کر کے پھیلایا گیا، فلاں کی بہنوں کے بیانات کو ریاستی سلامتی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ جیسے پوری قوم صرف تین چار شخصیات کے آس پاس گھومتی ہو، اور باقی کروڑوں لوگ کسی اور کائنات کی مخلوق ہوں جن کا وجود صرف بل اور ٹیکس کی حد تک مانا جاتا ہے حالانکہ آئی ایم ایف کی رپورٹ ایک واضح تنبیہ ہے کہ سنبھل جانے کا وقت ابھی ہے! درحقیقت معیشت کا حال بھی کسی سے نہیں چھپا کہ بازاروں میں قیمتیں دیکھ کر بھی انسان سوچتا ہے کہ شاید ٹیگ غلط لگ گیا ہو، مگر پھر معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ٹیگ کی نہیں، امید کی تھی۔ تنخواہیں دھوپ میں رکھے پانی کی طرح اڑ رہی ہیں، ٹیکسوں کی یلغار کسی موسم کی طرح نہیں رکتی، ٹریفک چالان آندھی کی طرح آتے ہیں اور پٹرول کی قیمتیں یوں اچھلتی ہیں جیسے رسّی تڑوا کر بھاگا ہوا گھوڑا کسی کو روندتا ہوا آگے نکل جائے۔ بجلی کے بل عوام کی جیب میں نہیں، دل میں بجلی گراتے ہیں۔ مگر۔۔ریاست اپنی دنیا میں گم کہ نوٹیفکیشن آیا یا نہیں اور اگلی باری کس کی؟ گویا ملک کے تمام مسائل حل ہوچکے !جس میں ذاتی مفاد مقدم ہو، زمینی حقائق کی پرواہ نہ کی جائے جس میں ملکیت و قومی مفادات کو ذاتی خواہشات کے سامنے قربان کیا جائے دراصل یہی رویہ کہ پہلے ہم، بعد میں عوام اصل’’ کھلا گٹر ‘‘ہے اورگٹر تو ایک جان لیتا ہے مگر بے حسی پوری قوم کی امید کا جنازہ اٹھا دیتی ہے۔ فیصلے طاقت کے کمروں میں تیار ہوتے ہیں، سیاست سکرینوں پر کھیلی جاتی ہے اور عوام کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا جاتا، سوائے اس کے کہ وہ اندھیری سرنگ میں چلتے رہیں، اس امید پر کہ شاید کبھی روشنی نظر آ جائے جبکہ نہ رہنمائی ہے، نہ نقشہ، نہ کوئی سمت۔ بس تجربے پر تجربہ، جیسے ملک نہیں کوئی لیبارٹری ہو جس میں ہر روز ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ کبھی سیاسی انجینئرنگ، کبھی انتظامی اکھاڑ پچھاڑ، کبھی معاشی نسخے جنہیں آزماتے آزماتے عوام کی کمر ٹوٹی جا رہی ہے لیکن ناکامیوں پر عوام ہنس بھی نہیں سکتے، کیونکہ ہنسی بھی مہنگی پڑتی ہے کہ ناکامی کا پھندا گلے میں ڈال کر کہا جاتا ہے کہ۔۔گھبرائیں نہیں، یہ سب آپ کی بہتری کے لیے ہے۔۔مگر عوام اب اس جملے پر ایمان نہیں رکھتے اوروہ جانتے ہیں کہ آگ اب صرف گلی کے گٹر تک محدود نہیں رہی، بجلی کے بلوں میں جھلستی ہے، بچوں کی فیسوں میں روتی ہے، دکانوں کی مہنگی روشنیوں میں تڑپتی ہے، گیس، پیٹرول، پانی، روزگا رسب اس آگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ آگ اب دہلیز پر نہیں، گھر کے آنگن میں دہک رہی ہے۔بہر حال اگر ہم آج بھی نہ جاگے تو کل اخبار میں یہ نہیں لکھا جائے گا کہ ’’ایک بچہ گٹر میں گر کر جاں بحق ہوا‘‘ ممکن ہے یہ لکھا جائے کہ یہ قوم بہت پہلے اپنے اجتماعی گٹر میں گر چکی تھی، فرق صرف اتنا ہے کہ اسے گرنے کا احساس ہی نہ تھاکیونکہ وہ تماشے دیکھنے میں مصروف تھی اور جب قومیں تماشوں میں گم ہو جائیں ،خوف آخرت سے خالی ہوں، وہ خود اپنی بربادی لکھتی ہیں۔ لہذااب سوال یہ نہیں رہاکہ جگر گوشے کیوں نہ بچ سکے بلکہ سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم اپنا باقی بچا ہوا شعور، بچی ہوئی غیرت اوربچا ہوا ملک‘ بچا سکیں گے یا نہیں؟

Shares: