کمرے کی دیواروں پر وقت کے سائے رینگ رہے تھے۔ کھڑکی کے پردے ہلکے ہلکے ہل رہے تھے، جیسے ہوا بھی کسی انجانی بےچینی کا اظہار کر رہی ہو،شگفتہ آئینے کے سامنے بیٹھی تھی۔آئینہ اُس کا چہرہ نہیں، اُس کی تنہائی دکھا رہا تھا،اس کے ہاتھوں میں کنگھی تھی، مگر وہ بالوں کو نہیں، خیالوں کو سلجھا رہی تھی،خیالات جو برسوں سے الجھے پڑے تھ، کبھی محبت کی نمی میں، کبھی نظراندازی کی دھول میں۔

ناصر، اس کا شوہر، ہمیشہ کی طرح اخبار کے سمندر میں غرق تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے حروف ناچتے، خبریں چیختیں، تصویریں لہراتیں ، مگر ان سب میں کہیں شگفتہ نہیں تھی،اسی اثنا،شگفتہ نے دھیرے سے کہا،ناصر، آج چاند بہت خوبصورت ہے ناں،ناصر نے اخبار کے اوپر سے سرسری سی نگاہ ڈالی، اور بنا توجہ کئے بولا، ہوں… شاید،اور پھر حروف کی دنیا میں واپس چلا گیا۔

یہ شاید کا لفظ شگفتہ کے دل میں کسی خنجر کی طرح اتر گیا۔کیا کسی کی توجہ بھی اب شاید ہو گئی ہے؟رات کے وقت وہ اکثر خود سے باتیں کرتی،کبھی آئینے سے، کبھی دیوار سے، کبھی چاند سے،میں تو کچھ نہیں مانگتی، وہ کہتی، نہ تحفے، نہ وعدے،بس ایک لمحے کی نگاہ ایک سنجیدہ لمسِ توجہ،مگر یہ چھوٹی سی خواہش بھی اب دنیا کے شور میں دب چکی تھی،عورت کی آواز اکثر نرم ہوتی ہے، مگر جب وہ دب جاتی ہے تو صدیوں گونجتی رہتی ہے۔

شگفتہ کی نگاہیں اب کمرے کے ہر کونے میں بھٹکنے لگیں،دریچے، میز، دیوار پر لٹکا کیلنڈر ، ہر شے خاموش تھی،مگر ان خاموشیوں میں ایک طنز چھپا تھا، جیسے کہہ رہی ہوں تمہیں توجہ چاہیے، مگر تمہارا وجود اب معمول بن چکا ہے،کبھی کبھی اسے یاد آتا وہ دن جب ناصر کی نگاہیں اُس پر ٹکی رہتی تھیں،جب ایک چائے کے کپ میں مسکراہٹ گھول دی جاتی تھی،جب خاموشی میں بھی ایک مکالمہ ہوتا تھالیکن….اب تو سب کچھ بدل چکا تھا،توجہ ایک رسمِ ماضی بن گئی تھی،وہ چاہتی تھی کہ کوئی اُس کے چہرے کی لکیروں میں وقت کی تھکن نہ دیکھے، بلکہ اُس کے دل میں باقی رہ جانے والے احساس کو پہچانے۔

شگفتہ اکثر سوچتی،یہ دنیا عورت سے محبت تو مانگتی ہے، مگر اسے سننا نہیں جانتی،عورت جب بولتی ہے، تو لوگ کہتے ہیں ‘خاموش رہو،اور جب خاموش رہتی ہے، تو کہتے ہیں ‘تم بدل گئی ہو۔کیا عورت کی توجہ کی خواہش کوئی گناہ ہے،یا یہ فطرت کی وہ صدائے خموش ہے جسے مرد سننے سے قاصر ہے؟ایک رات وہ دیر تک جاگتی رہی،
چاند کھڑکی سے اندر جھانک رہا تھا،اور چاندنی نے کمرے کے ہر کونے کو چھو لیا تھا،اس نے آہستہ سے کہا، چاند، تم بھی تو ہر رات آتے ہو، مگر کوئی تمہیں دیکھتا کب ہے،تمہاری روشنی سب کے لیے ہے، مگر تمہاری تنہائی تمہاری اپنی ہے۔میں تمہاری طرح ہوں شاید، چمکتی ہوئی، مگر غیرمحسوس

چاند جیسے سن رہا تھا،روشنی کی ایک لہر اس کے چہرے پر گری،اور وہ مسکرا دی ،وہ مسکراہٹ جو دل کی تھکن سے جنم لیتی ہے، مگر شکستگی میں بھی حسن رکھتی ہے۔شگفتہ نے خود سے کہا،شاید عورت کو توجہ کے لیے دوسروں کا محتاج نہیں ہونا چاہیے۔توجہ ایک کیفیت ہے، جو اندر سے پیدا ہوتی ہے،اگر دل بیدار ہو، تو پوری کائنات اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے،اور تب پہلی بار، اس نے خود کو محسوس کیا ،اپنے سانسوں کی نرمی، اپنی آواز کی گہرائی، اپنی مسکراہٹ کی موجودگی،

کمرے میں اب ویسا سنّاٹا نہیں تھا،دیواریں جیسے سانس لے رہی تھیں،شگفتہ نے کھڑکی کھولی ، ہوا کے نرم جھونکے نے اس کے بالوں کو چھوا،وہ لمحہ گویا کائنات کی خاموش اعترافی نگاہ تھی ،ایک خاموش مگر بھرپور توجہ،ناصر اب بھی اخبار پڑھ رہا تھا،مگر اس رات شگفتہ نے اُس کی طرف نہیں دیکھا۔وہ آئینے میں دیکھ رہی تھی ، خود کو،اور شاید پہلی بار،اسے لگا کہ وہ دیکھی جا رہی ہے ،کسی انسان کی نہیں،بلکہ اپنے وجود کی نگاہ سے

Shares: