ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا نے جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا تو وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔

آبنائے ہرمز عالمی سطح پر تیل اور گیس کی ترسیل کا اہم ذریعہ ہے، جہاں سے دنیا کے 20 فیصد تیل اور 30 فیصد گیس گزرتی ہے۔ روزانہ تقریباً 90 اور سالانہ 33 ہزار کے قریب بحری جہاز یہاں سے سفر کرتے ہیں۔ روزانہ 21 ملین بیرل سے زائد خام تیل اسی آبی گزرگاہ سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران سے دنیا بھر کو پہنچایا جاتا ہے، جن میں پاکستان، چین، جاپان، جنوبی کوریا، یورپ اور شمالی امریکا شامل ہیں۔

یہ اہم سمندری گزرگاہ مشرق وسطیٰ کے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایشیاء، یورپ، امریکا اور دیگر علاقوں سے جوڑتی ہے۔ اس آبی پٹی کی چوڑائی تقریباً 33 کلومیٹر ہے، جس میں دو بڑی شپنگ لینز موجود ہیں جن کی چوڑائی تین، تین کلومیٹر ہے اور بڑے آئل ٹینکرز انہی راستوں سے گزرتے ہیں۔قطر، جو دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی برآمد کرتا ہے، بھی اسی آبی گزرگاہ پر انحصار کرتا ہے۔

آبنائے ہرمز کے ایک جانب خلیج فارس اور دوسری طرف خلیج عمان ہے۔ خلیج فارس میں ایران، عراق، کویت، سعودی عرب، بحرین، قطر، یو اے ای اور عمان واقع ہیں۔چین اپنی معیشت کی ضروریات کا نصف تیل اسی خطے سے منگواتا ہے، جاپان اپنی 95 فیصد جبکہ جنوبی کوریا 71 فیصد خام تیل اسی راستے سے درآمد کرتا ہے۔ ان ممالک کی برآمدات مثلاً گاڑیاں اور الیکٹرانکس بھی انہی راستوں سے خلیجی ممالک کو پہنچتی ہیں۔

عالمی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر جنگ شدت اختیار کرتی ہے تو ایران آبنائے ہرمز کو بطور ٹرمپ کارڈ استعمال کرے گا۔ ایران بارودی سرنگیں بچھانے، آبدوزوں، جنگی کشتیوں اور اینٹی شپ میزائلوں کی تعیناتی کر سکتا ہے، جس سے تیل کی ترسیل معطل ہو سکتی ہے اور قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر سکتی ہیں۔

دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ آبنائے ہرمز نہ صرف ایران کے لیے اسٹریٹجک چوک پوائنٹ ہے بلکہ یہ دنیا کی توانائی ترسیل کی شہ رگ بھی ہے، تاہم اس کی بندش خود ایران کے لیے بھی سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔

Shares: